حیدرآباد ۔ 18 ۔ ستمبر : ( سیاست ڈاٹ کام ) : تلنگانہ میں حالیہ دنوں قدرت کی بڑی مہربانیاں ہورہی ہیں ۔ آسمان پر منڈلاتے بادلوں کے پھٹ پڑنے جیسے واقعات نے موسلادھار بارش کا سلسلہ شروع ہوا ہے خاص کر تلنگانہ کے ضلع رنگاریڈی کے علاقوں میں شدید بارش ہورہی ہے ۔ اس کے آب گیر علاقے بھی پانی سے لبریز ہورہے ہیں ۔ مگر اس حقیقت کے باوجود دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد کے لیے پینے کے پانی کا ذخیرہ رکھنے والے دو بڑے تالاب عثمان ساگر (گنڈی پیٹ ) اور حمایت ساگر میں ہنوز بارش کا پانی خاطر خواہ طور پر جمع نہیں ہورہا ہے ۔ اچھی بارش کے باعث یہ توقع کی جارہی تھی کہ ان دو ذخائر آب لبریز ہوں گے لیکن نومبر 2015 سے مکمل طور پر خشک ہوجانے والے ان دونوں ذخائر آب اچھی بارش کے باوجود پانی بھر جانے کا انتظار کررہے ہیں ۔ حیدرآباد میٹرو واٹر سپلائی اینڈ سیوریج بورڈ اور عوام الناس کو اس بات کی مسرت ہورہی تھی کہ اس سال بہترین بارش ریکارڈ کئے جانے کے بعد دونوں ذخائر آب میں پانی جمع ہوگا ۔ عوام الناس رنگاریڈی میں ہونے والی بہترین بارش کی تصاویر کو سوشیل میڈیا پر پوسٹ کر کے یہ اندازہ قائم کرنے لگتے ہیں کہ بہت جلد دونوں ذخائر آب میں پانی جمع ہوگا ۔ لیکن جمعہ تک پانی کے بہترین بہاؤ کے باوجود ان ذخائر آب کی سطح میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ۔ اس طرح عوام الناس کی توقعات پورے نہیں ہوئے ۔ اضافی بارش نے عوام الناس میں مسرت کی لہر دوڑا دی تھی ۔ عثمان ساگر میں پانی کے ذخیرہ کرنے کی گنجائش 3.9 ٹی ایم سی فٹ ہے جب کہ یہاں اب تک صرف 0.5 ٹی ایم سی فٹ پانی جمع ہوا ہے اسی طرح حمایت ساگر کی ذخیرہ آب کی گنجائش 2.9 ٹی ایم سی ہے یہاں صرف 0.1 ٹی ایم سی فٹ پانی ہی آیا ہے جب کہ ان دو ذخائر آب کے آبگیر والے علاقوں میں گذشتہ چند دن میں 604 ملی میٹر بارش ہوئی ہے جو مانسون کے موسم یکم جون تا 16 ستمبر کے دوران 565 ملی میٹر بارش ہوئی تھی ۔ عثمان ساگر اور حمایت ساگر میں جن علاقوں سے بہہ کر پانی جمع ہوتا ہے وہاں اچھی بارش ریکارڈ کی گئی ہے مگر یہ پانی کہاں گیا یہ غور طلب ہے ۔ پرگی ، وقار آباد ، اننت گری میں گذشتہ چند دنوں میں شدید بارش ہوئی ہے لیکن ایسی بارش کے باوجود پانی کا بہاؤ توقع کے مطابق نہیں تھا ۔ اور یہ بارش کا پانی کہاں غائب ہوگیا یہ تشویشناک امر ہے ۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ سرکاری ذرائع نے انتباہ دیا ہے اگر حکومت اس معاملہ میں سنجیدہ ہے تو اسے فوری توجہ دینی چاہئے ۔ دونوں ذخائر آب عثمان ساگر اور حمایت ساگر سے دونوں شہروں کو روزانہ 40 ملین گیالن پانی سربراہ کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح دیگر دو ذخائر آب سنگور اور مانجرا سے روزانہ 120 گیالن پانی سربراہ کیا جاتا ہے ۔ ان ذخائر آب کے باوجود حیدرآباد میٹرو واٹر سپلائی اینڈ سیوریج کو گوداوری اور کرشنا ندیوں سے پانی حاصل کرنے کی اسکیم پر عمل کرنا پڑرہا ہے ۔ کرشنا مرحلہ سوم سے 90 ملین گیالن پانی اور گوداوری سے 85 ملین گیالین پانی حاصل کیا جارہا ہے ۔ ریاست میں اچھی بارش کے باوجود ان دونوں تالابوں میں پانی کا ذخیرہ مایوس کن ہے ۔ ریاست میں معمول کی بارش 677.5 ملی میٹر کے برعکس 693 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی ہے ۔ اتنی اچھی بارش کے باوجود آخر یہ بارش کا پانی کہاں جذب ہوا ہے ۔ یہ حیرت انگیز اور غور طلب مسئلہ ہے ۔ اس پانی کا بہاؤ ان کے اصل ذخائر تک پہونچے بغیر کہاں چلا گیا ؟ یہ پتہ چلانا حکومت کے لیے ضروری ہے ۔۔
زمینات پر ناجائز قبضے
ریاستی حکومت کی ناکامیوں پر توجہ دی جائے تو پتہ چلے گا کہ ریاستی حکومت اپنے جی او 111 پر عمل آوری ہی میں ناکام ہے ۔ اس جی او 111 کے ذریعہ 84 مواضعات میں واقع تالابوں کی مکمل سطح آب سے 10 کیلو میٹر تک تعمیرات پر پابندی عائد کردی گئی ہے لیکن عثمان ساگر اور حمایت ساگر کے اطراف تعمیرات کا جنگل بڑھتا جارہا ہے ۔ محکمہ آبرسانی کے ذرائع نے کہا کہ جی او 111 کی 1996 میں اجرائی کے بعد سپریم کورٹ کی مداخلت پر محکمہ مالی اور محکمہ آبپاشی کے عملہ نے سارے ناجائز قبضے والے علاقوں کا معائنہ کیا تھا اور ایف ٹی ایل باونڈری اور بفر زون کی نشاندہی کی گئی تھی اور ان کا باقاعدہ ریکارڈ بھی بنایا گیا تھا ۔ اس کے لیے محکمہ مال اور حیدرآباد میٹرو پولیٹن ڈیولپمنٹ اتھاریٹی کی ذمہ داری تھی کہ وہ ان ناجائز قابضین کے خلاف سخت کارروائی کرے لیکن ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی ان دونوں ذخائر آب کو آنے والے بارش کے پانی کے راستوں کو صاف کروایا گیا ۔ یہ راستے بھی محکمہ مال کے زیر کنٹرول ہیں ۔ ضلع رنگاریڈی کے عہدیداروں کی توجہ اس جانب مبذول کروائی گئی کہ وہ بارش کے پانی کے ضائع ہونے والے مقامات کا جائزہ لے کر یہاں سے ناجائز قبضوں کو برخاست کرائیں ۔ لیکن اس نمائندگی کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا ہے ۔ عثمان ساگر اور حمایت ساگر کے آبگیر علاقوں میں واقع ڈیمس کا پتہ چلانا اور پانی کی بچت کے لیے بنائے گئے کھڈوں کا بھی پتہ چلانا ضروری ہے ۔ ان علاقوں میں پانی کے بہاؤ میں کمی آنے کی ایک وجہ بے شمار فارم ہاوزس کا وجود میں آنا بھی ہے ۔ ان فارم ہاوزس کی وجہ سے ان دو بڑے آبی ذخائر میں پانی جمع نہیں ہورہا ہے ۔۔