آسام این آر سی کے مسئلہ پر راجیہ سبھا میں اپوزیشن کا سخت احتجاج، اجلاس ملتوی

راجیو گاندھی کیخلاف امیت شاہ کے ریمارکس پر کانگریس، ترنمول ، این سی پی ارکان کا شوروغل، وینکیا نائیڈو ناراض

نئی دہلی 31 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) آسام میں شہریوں کے قومی رجسٹریشن (این آر سی) کے مسئلہ پر اپوزیشن نے حکومت کو محتاط رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ حکمراں بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے کانگریس پر الزام عائد کیاکہ آسام میں غیر قانونی مہاجرین کی شناخت و نشاندہی میں وہ ہمت و حوصلہ کا مظاہرہ نہیں کررہی ہے۔ کانگریس نے حکومت پر زور دیا کہ وہ انسانی رویہ اختیار کرے اور کسی بھی ہندوستانی کو آسام کے شہریوں سے متعلق قومی رجسٹریشن (این آر سی) سے خارج نہ کرے۔ ترنمول کانگریس ٹی ایم سی نے اس کی مکمل دستبرداری کا مطالبہ کرتے ہوئے دعویٰ کیاکہ ہندوستانیوں کو اس سے باہر رکھا گیا ہے۔ آر ایس ایس کے مسئلہ پر راجیہ سبھا میں بحث کے دوران کانگریس اور ترنمول کانگریس کے ارکان نے شوروغل اور ہنگامہ آرائی کی۔ امیت شاہ نے ان کا جواب دیتے ہوئے دریافت کیاکہ کانگریس آیا غیر قانونی بنگلہ دیشیوں کو بچانا چاہتی ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ یہ عمل کانگریس کے وزیراعظم کی مساعی ہے اور اُن (راجیو گاندھی) میں اس کی ہمت نہیں تھی۔ ہم میں ہمت ہے اور ہم ی ہ کام کررہے ہیں‘‘۔ شاہ کے ان ریمارکس پر کانگریس اور ٹی ایم سی ارکان نے پُرشور احتجاج کیا اور صدرنشین وینکیا نائیڈو نے پہلی مرتبہ 10 منٹ کے لئے ایوان کی کارروائی ملتوی کی۔ وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ بھی ایوان میں موجود تھے لیکن شوروغل اور احتجاج کے سبب کوئی بیان نہ دے سکے‘‘۔ قبل ازیں صدرنشین نے وقفہ سوالات کو آج ملتوی کرتے ہوئے این آر سی پر بحث کی اجازت دی تھی کیوں کہ یہ ’’ایک انتہائی حساس اور سنگین مسئلہ ہے‘‘۔ قائد اپوزیشن غلام نبی آزاد نے بحث شروع کرتے ہوئے کہاکہ یہ کسی محصوص مذہب، ذات یا علاقہ کا نہیں بلکہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔ آزاد نے کہاکہ ’’ہم نہیں چاہتے کہ کسی بھی فرد کو ملک سے باہر نہ نکالا جائے۔ یہ بات صرف 40 لاکھ افراد کی نہیں ہے۔ اگر آپ ان کے بچوں اور خاندانوں پر غور کریں تو یہ تعداد 1 تا 1.5 کروڑ افراد تک پہونچ جائے گی۔ علاوہ ازیں اس مسئلہ کے بین الاقوامی اثرات بھی مرتب ہوں گے بالخصوص ہندوستان کے قریبی دوست بنگلہ دیش بھی اثرانداز ہوگا۔ آزاد نے اس تاثر کا اظہار کیاکہ ہندوستان کے شہری کی حیثیت سے شناخت ثابت کرنے کی ذمہ داری محض کسی فرد واحد پر ہی نہیں بلکہ حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اُنھوں نے مزید کہاکہ حکومت کو چاہئے کہ متاثرہ افراد کو ہراساں نہ کیا جائے بلکہ ان کے لئے قانونی گنجائش فراہم کی جانی چاہئے۔ آزاد نے کہاکہ شناخت ثابت کرنے کسی فرد کے پاس 16 کے منجملہ ایک دستاویز بھی موجود ہو تو یہ بھی کافی ہوسکتا ہے۔ اس مسئلہ کو کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے سیاست یا ووٹ کا مسئلہ نہیں بنایا جانا چاہئے۔ ایس پی کے رام گوپال یادو نے کہاکہ این آر سی میں کئی مسلمانوں اور ہندوؤں کے نام بھی شامل نہیں کئے گئے ہیں حتیٰ کہ بہار اور اترپردیش جیسی ریاستوں کے افراد کے نام بھی شامل نہیں کئے گئے ہیں۔ ترنمول کانگریس کے سکھیندو شیکھر رائے نے کہاکہ ان کی پارٹی کی سربراہ ممتا بنرجی نے کہا ہے کہ اس (این آر سی) کو واپس لیا جانا چاہئے۔ ہندوستان کے قانونی شہریوں کو ملک سے نکال باہر نہیں کیا جاسکتا۔ اُنھوں نے کہاکہ 40 لاکھ افراد کو بے وطن بنادیا گیا ہے جو دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا عجیب و منفرد واقعہ ہے۔ تلگودیشم کے وائی ایس چودھری نے دعویٰ کیاکہ این آر سی کی تدوین و ترتیب میں مناسب ضابطہ استعمال نہیں کیا گیا۔ این سی پی کے مجید میمن نے کہاکہ یہ محض کسی ایک مذہب کے افراد کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ایک ہندوستانی شہری کے حقوق سے متعلق دستور اقدار بھی اس سے مربوط ہیں۔ مجید میمن نے کہاکہ گزشتہ 50 سال سے آسام میں رہنے والے 40 لاکھ افراد کو کسی دوسرے مقام پر ڈال دیئے جانے کی صورت میں ہندوستان ساری دنیا میں مذاق کا موضوع بن جائے گا۔ مسرس ٹی کے رنگا راجن (سی پی آئی ایم)، منوج کمار جھا (آر جے ڈی)، ڈی راجہ (سی پی آئی)، بسواجیت دائماری (بی پی ایف)، سواپن داس گپتا (نامزد)، وی وجئے سائی ریڈی (وائی ایس آر کانگریس)، سنجے سنگھ (عآپ) ، دھرم پوری سرینواس (ٹی آر ایس) ، تروچی سیوا (ڈی ایم کے) اور دوسروں نے بھی مخاطب کیا۔ ذرائع نے کہاکہ صدرنشین نے اس مسئلہ پر قائد اپوزیشن غلام نبی آزاد اور مملکتی وزیر پارلیمانی اُمور سے ایوان کے التواء کے مسئلہ پر تبادلہ خیال کیا۔ ذرائع کے مطابق صدرنشین وینکیا نائیڈو نے غلام نبی آزاد سے کہاکہ اس مسئلہ پر بحث کے لئے ایوان کے تمام گوشوں کے مطالبہ پر پہلی مرتبہ وقفہ سوالات کو معطل کیا گیا لیکن شوروغل اور خلل اندازی کے سبب مقصد کو شکست ہوگئی۔