ماہر معاشیات ‘ مورخ اور سوشیل سائنٹس امیابگاچی نے ہندتوا اور اس کے ماننے والوں پر بات کی۔
پٹنہ۔ ماہرمعاشیات ‘ مورخ اور سماجی سائنس داں امیا کمار باگچی ایک سابق پروفیسر ریزور بینک آف انڈیا برائے سنٹر فار اسٹڈیز سماجی سائنس ‘ کلکتہ اور انسٹیٹوٹ آف ڈیولپمنٹ کلکتہ کے بانی ڈائرکٹر نے ہندتوا اور اس کے ماننے والوں پر سوبھو رانجن داس گپتا کے ساتھ بات کی۔
ماضی کے تاریخی مراحل میں اس طرح کی عدم روداری‘ مذبیت اور برتاؤ کاکوئی تجربہ آپ نے دیکھا ہے؟۔ اقتدار والے ہمیں اس کس طرح کپڑے پہنیں اور کون سا گوشت کھائیں اس بات کی ہدایتیں دے رہے ہیں
نہیں میں نے ماضی میں کبھی ایسی عدم روداری نہیں دیکھی ‘ یہ صاف دیکھائی دینے والا‘ اور ردعمل پیش کیاجانے والا ہے۔
جوماضی میں ہم پر کئے گئے حملوں میں سے موجودہ عدم روداری ایک برعکس ہے تودیگر دو بڑی سیاسی ناکامی ہے ۔ میں اندرا گاندھی کی جانب سے نافذ کردہ ایمرجنسی اور مذکورہ گجرات نسل کشی جب نریندر مودی ریاست کے چیف منسٹر تھے کاحوالہ دے رہاہوں ۔ جبکہ
ایمرجنسی بنیادی طور پر آمریت اور اقتدار کو ہدایتدینے کا کام تھا ‘ مذکورہ موجودہ عدم روداری کا عمل جمہوریت خانوں کو جوں کا توں رکھتے ہوئے منعقد کیاجانے والا کام ہے۔
گائے کے نام پر تشدد برپا کرنے والوں کو گرفتار کیاجاتا ہے اور ان کی رہائی کے بعد مودی حکومت انہیں ملازمتیں فراہم کرتی ہے ۔
اس سے زیادہ اور یہ کافی اہمیت کا حامل ہے ایمرجنسی کسی ایک کمیونٹی کے خلاف کی گئی کاروائی نہیں تھی ۔
یہ حقیقت میں بڑی تضاد ایمرجنسی اور عدم روداری کے اصولوں پر کام کرنے والوں کے درمیان میں ہے۔ مذکورہ گجرات نسل کشی مذہبی نفرت پھیلانے والوں اور خون کے پیاسوں کی کارستانی تھی ۔
داس گپتا ۔ عدم روادی کی بدترین مثال کے طور ان میں کون سے چیز کو آپ اہمیت کاحامل قراردیں گے مذکورہ گائے کی حفاظت کی تحری‘ یاپھر قومی سطح پر کشمیریوں کے ساتھ مارپیٹ‘ جس نے مکمل طور پر رعایت نہیں کی ؟
باگچی۔ پچھلی صدی کے 80کے دہے سے اہمت دہشت گردی کے نام پر کشمیریوں کے ساتھ ہمیشہ بدسلوکی کی گئی ہے۔ اب پلواماں قتل عام کے بعد انہیں منظم انداز میں نشانہ بنایاگیا‘
بالخصوص ان ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔ جہاں تک گائے کی حفاظت کی تحریک ہے دوسری جانب اس نے مارپیٹ کی منظوری دیدی ہے جس کے ذریعہ مسلمانوں او دلتوں کو قتل کرنا اور دہشت زدہ کیاجارہا ہے