واشنگٹن ۔ یکم ؍ ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) ٹرمپ انتظامیہ نے اب اپنی تمام تر توجہ جزیرہ نما کوریا کو نیوکلیئر توانائی سے پاک بنانے کی جانب مرکوز کر رکھی ہے اور فی الحال امریکہ کے ایجنڈہ میں اس سے بڑھ کر کوئی اور ترجیحات نہیں۔ وائیٹ ہاؤس پریس سکریٹری سارہ سینڈرس نے اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے فی الحال ایک سب سے بڑے تنازعہ پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کر رکھی ہے اور وہ ہے شمالی کوریا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت شمالی کوریا جس جنونی کیفیت سے گزر رہا ہے اس پر روک لگانا بیحد ضروری ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس چھوٹے سے ملک کی دیوانگی پوری دنیا کے سامنے جنگ کی صورت میں ظاہر ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی اولین ترجیحات میں شمالی کوریا کو نیوکلیئر توانائی کاحامل ملک بنانے سے روکنا ہے۔ امریکہ کے پاس فی الحال اس سے بڑی کوئی ترجیح نہیں ہے اور ہم نے اپنی تمام تر توجہ اسی پر مرکوز رکھی ہے۔
سینڈرس نے اخباری نمائندوں کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ وضاحت کی جہاں ان سے پوچھاگیا تھا کہ کیا امریکہ شمالی کوریا میں قیادت کی تبدیلی کا خواہاں ہے؟ سارہ سینڈرس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جاریہ ہفتہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ کے متعدد اعلیٰ سطحی عہدیداروں کے علاوہ عالمی قائدین سے بھی بات چیت کی ہے اور آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ انہوں نے سوائے شمالی کوریا کے کسی دیگر موضوع پر بات چیت ہی نہیں کی جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہیکہ شمالی کوریا کس حد تک ان کے حواس پر چھایا ہوا ہے۔ ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈونالڈ ٹرمپ مستقبل میں بھی اپنی یہی کوشش جاری رکھیں گے اور شمالی کوریا سے متعلق عالمی قائدین سے وقتاً فوقتاً تبادلہ خیال کرتے رہیں گے۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے دریں اثناء جرمنی کی جانب سے شمالی کوریا کے خلاف کئے گئے اقدامات کا خیرمقدم کیا جہاں جرمنی نے شمالی کوریا میں اپنے سفارتخانہ کی سرگرمیوں میں نمایاں کمی کردی ہے اور اب اس بات کا خواہاں ہے کہ شمالی کوریا بھی جرمنی میں اپنی سفارتی سرگرمیاں کم کردے۔
دوسری طرف اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان ہیتھر نوریٹ نے بھی اپنی نیوز کانفرنس کے دوران وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہی ہمارا طریقہ ہے جس کے ذریعہ ہم شمالی کوریا پر دباؤ بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ شمالی کوریا کو معاشی طور پر اتنا مجبور کردیا جائے کہ وہ پیسے پیسے کو محتاج ہوجائے اور بالسٹک میزائل کی تیاری میں اپنی دولت جھونکنا بند کردے۔ آج دنیا جانتی ہے کہ شمالی کوریا نے کس طرح دنیا کے ہر ملک کو خوفزدہ کر رکھا ہے کیونکہ کوئی ملک اگر امریکہ کو آنکھ دکھا سکتا ہے تو پھر سمجھ لیجئے کہ وہ دیگر ممالک کے لئے بھی درد سر ثابت ہوسکتا ہے۔ لہٰذا یہی وجہ ہیکہ شمالی کوریا پر دباؤ بنانے کیلئے دنیا کا ہر ملک راضی ہے۔ ہر ملک یہی چاہتا ہیکہ شمالی کوریا پر امریکہ کو دباؤ بنانا چاہئے لیکن ہیتھرنوریٹ نے مزید کہا کہ دباؤ بنانے کے اپنے اپنے طریقے ہیں لہٰذا ہر ملک کو یہ فیصلہ خود کرنا ہے کہ اس نے دباو بنانے کا کیا طریقہ اختیار کیا ہے یا کرنے والا ہے۔ شمالی کوریا کو قرضہ جات اور امداد کے نام پر دنیا کے خوشحال ممالک سے جو خطیر رقومات دی جاتی ہیں شمالی کوریا ان رقومات کا مناسب استعمال نہیں کرتا بلکہ نیوکلیئر ہتھیار سازی میں رقومات مشغول کی جارہی ہیں۔
اگر شمالی کوریا کو رقومات کی سربراہی کا یہ سلسلہ روک دیا جائے تو اس کی عقل ایک دن میں ہی ٹھکانے لگ جائے گی۔ نیوریٹ کے ایک دیگر سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ شمالی کوریا کی عوام کو صحیح کھانا تک نہیں ملتا۔ عوام تو چھوڑیئے فوجیوں کی حالت زار بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ حالیہ دنوں میں شمالی کوریا سے بھاگ کر آنے والے ایک فوجی کا طبی معائنہ کیا گیا تو اسے آنتوں کی سوزش جیسی بیماری میں مبتلا پایا گیا۔ ان حقائق کے پیش نظر امریکہ نے ’’شمالی کوریا پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کی مہم‘‘ کا آغاز کیا ہے اور اس بات کا خواہاں ہے کہ دنیا کا ہر ملک اس کے ساتھ شامل ہوجائے جس کیلئے پہلا قدم یہ ہوگا کہ تمام ممالک شمالی کوریا میں اپنے سفارتی مشن بند کردیں اور اگر آپ ایسا فیصلہ کریں گے تو آپ کو امریکہ کی پوری پوری تائید حاصل رہے گی۔ یہی نہیں بلکہ کسی بھی ملک میں اگر کوئی شمالی کوریائی ورکر برسرکار ہے تو اسے فوری وہاں سے نکال دیا جائے۔ یاد رہیکہ منگل کے روز بھی شمالی کوریا نے ایک بین براعظمی بالسٹک میزائل (ICBM) کا ٹسٹ کیا تھا جس کے بعد ہی امریکہ نے شمالی کوریا کے خلاف دباؤ بڑھانے کی مہم کا آغاز کیا ہے۔