الہ آباد ہائی کورٹ کے احاطہ میں موجود مسجد ہٹانے کی ہدایت۔ عدلیہ پر ہندوتوا ایجنڈہ حاوی۔ سینئر وکیل روی کرن کا ردعمل

الہ آباد ۔ ہائی کورٹ کیمپس میں واقع مسجد کے کیس میں20ستمبر کے روز چیف جسٹس ڈی وی بھونسلے کی بنچ نے فیصلہ محفوظ کرلیاتھا ‘ چہارشنبہ کے روز وہی فیصلہ سناتے ہوئے مذکورہ بنچ نے مسجد انتظامیہ کمیٹی کو تین ماہ کے اندر مسجد ہٹالینے کا فیصلہ سنایااور ساتھ میں بھی کہاکہ مسجد انتظامیہ ڈی ایم سے رابطہ قائم کرتے ہوئے مسجد کے لئے متبادل جگہ تلاش کرکے اور مسجد کی تعمیر کے متعلق غور فکر کرے۔

اس کے ساتھ ہی چیف جسٹس نے یہ بھی فیصلہ سنایا کہ ناتو اس عدالتی کیمپس میں اور نہ ہی ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ کے کیمپس میں کسی بھی طرح کی مذہبی عبادت یا پوجا کی اجازت نہ دی جائے ۔

چیف جسٹس کے مذکورہ فیصلے پر مسجد انتظامیہ کمیٹی کی پیروی کررہے وکلاء میں سے ایک سینئر وکیل روی کرن جین نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ یہ سراسر غلط فیصلہ ہے۔ جودلائل ہم نے پیش کئے ہیں اس کی بنیاد پر اس قسم کے فیصلے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔

عدلیہ سے کسی کی عقیدت کو ٹھیس پہنچانا نہیں چاہئے۔ انہو ں نے کہاکہ عدالت سے ہمیں ایسی امید نہیں تھی۔آج جو ہندوتوا ایجنڈہ پورے ملک میں حاوی ہے اس سے عدلیہ بھی متاثر نظر آرہی ہے۔

اس کے علاوہ ویلفیر پارٹی آف انڈیا کے صوبائی جنرل سکریٹری جاوید محمد نے کہاکہ یہ فیصلہ جو چیف جسٹس ڈی بی بھونسلے کا ہے وہ منصفانہ نہیں ہے۔مذکورہ پی ائی ایل پر طویل بحث کرانا اور یہ فیصلہ سنگھی خیال کو سامنے رکھتے ہوئے لیاگیاہے۔

اس طرح کے فیصلے کی ہم مذمت کرتے ہیں اور کورٹ سے اپیل کرتے ہیں اس طرح کے فیصلے کو واپس لیا جائے یا دوبار غور وخوص کیاجائے ۔ایڈوکیٹ کے کے رائے نے کہاکہ یہ ایڈوکیٹ مرحوم نفیس کاظمی صاحب کا قدیم بنگلہ ہے‘ انہو ں نے اس بنگلے کو مسجد کے نام وقف کردیااور اس میں جج بھی نماز ادا کرنے کے لئے آتے تھیووکلا بھی آتے تھے۔

اس وقت ہائی کورٹ کے بلڈنگ کا وجود بھی نہیں تھا۔ آج تک ہائی کورٹ نے کبھی اعتراض نہیں کیالیکن اچانک ایک معمولی وکیل جو یوگی جی کی حکومت میں پی ائی ایل داخل کردیا او رجلد بازی میں چیف جسٹس نے اپنا فیصلہ سنادیاجو سراسر غلط ہے۔

تیس سال سے ہائی کورٹ کو کچھ عمل نہیں تھا لیکن اچانک تمام معلومات سے وہ واقف ہوگیا۔سابق پرنسپل میڈیکل کالج یونانی طب پروفیسر سعد عثمانی نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو مسلمانوں کے لئے تکلیف دہ بتایا۔

خصوصا مسلمانوں کے خلاف زہر آلود ہوائیں چل رہی ہیں پھر بھی ہم یہ بتانا چاہیں گے کہ مسجد ایڈوکیٹ نفیس کاظمی صاحب مرحوم کے بنگلہ کا ایک حصہ میں ہوا کرتی ہے‘ جہاں پر عرصہ دراز سے نماز پڑھی اور پڑھائی جاتی ہے۔ ہائی کورٹ کے احاطے میںیہ مسجد کبھی نہیں رہی ہے۔

یہ بعد میں جب حکومت نے ایڈوکیٹ نفیس کاظمی صاحب مرحوم سے یہ بنگلہ اکوائر کرلیاتب سے یہ کہاجاسکتا ہے کہ مسجد ہائی کورٹ کے احاطے میں ہے‘ اتنے عرصہ کے بعد مسجد کے وجودکے خلاف فیصلہ آنا مسلم وکلاء اور جج صاحبان کے لئے ایک جھٹکا ہے