حیدرآباد(پریس ریلیز)
المعہد العالی الاسلامی میں ہندوستان اورمسلمان تاریخی حقائق اور تعمیری کردار کے عنوان پر مشہور مورخ اورسماجی کارکن جناب ڈاکٹر رام پنیانی کا توسیع خطاب ہوا، پروگرام کی ابتدا معہد کے استاذ مولانا محمد اعظم ندوی کی تلاوت کلام پاک سے ہوئی، بعدازاں علامہ اقبال کی مشہور نظم -چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سنایا-پڑھی گئی،پروگرام کی نظامت مولانا عمرعابدین قاسمی مدنی نے کی،انہوں نے ہی معہد کا مختصر تعارف بھی پیش کیا۔
ڈاکٹر رام پنیانی کا یہ توسیعی خطاب فکر انگیز ،چشم کشا اور مغالطوں کے پردہ کو چاک کرنے والاتھا،انہوں نے خطاب کی ابتدا اس سے کی کہ وہ مذہب کے خلاف نہیں بلکہ مذہب کے سیاسی اور سماجی استحصال واستعمال کے خلاف ہیں،اوریہ کہ مذہب مورل ویلیوز پر مشتمل ہوتاہے اوراخلاقی اقدار دیشی بدیشی نہیں ہوتے ،بلکہ وہ عالمگیر اورآفاقی سچائی ہوتے ہیں،انہیں سرحدوں اورجغرافیائی حدود میں بانٹنا غلط ہے،اپنے خطاب میں فاضل محاضر نے مزید کہا کہ راجاﺅں اورحکمرانوں کو ہندو مسلم کے خانہ میں بانٹنا غلط ہےاور محمود غزنوی اورسومنات مندر کی مثال پیش کرتے ہوئے کہاکہ اگر وہ واقعی بت شکن ہوتا تواس نے بامیان کے بدھ کی مورتی کو کیوں نہیں توڑا،اسی طرح راستے میں آنے والے مندروں کو اس نے کیوں نہیں توڑا،سومنات پر اس کا حملہ محض حصول دولت کیلئے تھا۔فاضل محاضر نے اس کا بھی انکشاف کیاکہ پرانے دو رمیں جب ہندو راجا بھی آپس میں لڑتے تھے توفتح یاب راجہ شکست خوردہ راجہ کی مملکت کے منادر کو توڑدیتاتھا،اسی ضمن میں مزید کہاکہ کشمیر کے ایک ہندو راجہ نے ایک محکمہ قائم کیاتھا، جس کا مقصد یہ تھاکہ سونے چاندی کی مورتیوں کو اکھاڑ کر اس کے پاس لایاجائے،مزید کہاکہ ٹیپوسلطان سے لڑائی میں جب مراٹھوں کو شکست ہوئی توانہوں نے سری رنگاپٹنم کے مندر پر اپنا غصہ اتارا اوراسے توڑدیا اورٹیپوسلطان نے اس کی تعمیر کی اور اورنگ زیب جس کو ہندومخالف سمجھاجاتاہے،اس نے بہت سے مندروں کی مالی مدد کی ،اورنگ زیب کے مندروں کی امداد کے فرامین کو ڈاکٹر بشمرناتھ پانڈے نے ایک کتاب میں جمع بھی کیاہے،اسی طرح فاضل محاضر نے اکبر اورراناپرتاپ سنگھ اور شیواجی اور اورنگ زیب کے درمیان ہوئی لڑائیوں کے بارے میں کہاکہ ان کے درمیان حصول اقتدار کی لڑائی تھی اوریہ کوئی مذہبی لڑائی نہیں تھی اوران کے سپہ سالار اورفوجی کمانڈر عموما مخالف حکمراں کے مذہب کے ہواکرتے تھے۔
فاضل محاضر نے توسیعی خطاب کے دوسرے نشست میں ہندوستان کی تعمیر وترقی میں مسلمانوں کے کردار پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ چاہے لباس کی بات ہو ،یاپھر کھانے پینے کی ،یاپھر زبان وادب اور دیگر علوم وفنون کی، اس میں ہندوستان کے مسلمانوں کا کردار ناقابل فراموش ہے،اس میں فاضل محاضر نے بتایاکہ سلائی کا فن عربوں سے ہندوستان پہنچا اورپھر اس کی بنیاد پر مختلف قسم کے لباس بنائے گئے، ورنہ پہلے محض دھوتی اور ساڑھی ہواکرتی تھی۔
فاضل محاضرنے ایک ہم بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہاکہ تاریخ پڑھتے ہوئے سینکڑوں حقائق سامنے آتے ہیں، اس میں سے چند کو منتخب کرلینا اور بقیہ کو نظرانداز کردینا تاریخ کا غلط مطالعہ ہے، اورتاریخ سے نفرت کشید کرنے کا اورتاریخ کو فرقہ وارانہ بنیاد پر بانٹنے والوں کا طریقہ یہی ہوتاہے کہ وہ تاریخ سے اپنی پسند کی چیزیں منتخب کرلیتے ہیں اوربقیہ کو نظرانداز کردیتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہاکہ اسی طرح حقیقت الگ ہے اورمختلف حقائق کو جوڑ کر ایک نظریہ پیش کرنا دوسری بات ہے، حقیقت اپنی جگہ درست ہوتی ہے اور اس کو جوڑ کر نکالاگیا یا پیش کیا منظرنامہ یا نظریہ وہ اس کے پیش کرنے والے کے خیال اورجذبات سے متاثر ہوتاہے،لہذا تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ تاریخ کے حقائق کو جوڑکر پیش کرنے والا مصنف خود کس فکر ونظر سے متاثر ہے؟
المعہد العالی العالی الاسلامی کے بانی وناظم مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے صدارتی خطاب میں ڈاکٹر رام پنیانی کا شکریہ اداکیا اورطلبہ کو تاریخ کے معروضی ،غیرجانبدارنہ اورعقل ومنطق کی رہنمائی میں مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا ،توسیعی خطبہ کے اختتام پر جناب اقبال احمد انجینئر نے کلمات تشکر کہے۔
You must be logged in to post a comment.