سال2017میں صحت عامہ کی تحریک کو اس وقت شدید نقصان پہنچاتھا جب علاقے میں بچوں کی نسبندی کی افواہ تیزی کے ساتھ پھیل گئی تھی‘ جس کے سبب ٹیکہ اندازی کا تناسب 13فیصد رہا۔ اس سال حکومت نے کامیابی کے لئے گاؤں کے بزرگوں اور مذہبی شخصیتوں کا سہارا لیاتھا۔
گروگرام۔پچھلے سال جب میوات کی پوہانا تحصیل میں واقعہ پینان گاؤں میں26سالہ آشا ورکر شہناز پہنچی تو گھر گھر جاکر انہوں نے مکینوں سے کہاکہ وہ اپنے بچوں کو ٹیکہ لگالیں‘ انہیں جواب میں بند دروازے ہی ملے۔
شہنازنے یاد کرتے ہوئے کہاکہ ’’ بہت سارے لوگ دروازے کھولے بغیر ہی یہ کہنے لگے کہ ہمیں کوئی انجکشن نہیں چاہئے۔ مہربانی کرکے ابھی چلی جاؤ‘ وہ اندر سے جھانک رہے تھے‘‘۔مزیدکہاکہ بہت سارے لوگوں کو اس بات کاڈر تھا کہ ٹیکہ لگانے کے بعد ان کے بچوں کو بخاراور زخم آجائے گا۔
انہوں نے مزیدکہاکہ’’ وہ کہتے تھے کہ تم حکومت کی جانب سے ہو ‘ کیو ں تم پر بھروسہ کیاجائے‘‘۔ سال 2015اور 16کے کے فیملی ہلت سروے چار کے مطابق میوات میں ٹیکہ اندازی کے تناسب 13فیصد ہی رہا تھا۔
جب ہریانہ کی حکومت نے ایم آر ٹیکہ کی مہم اس سال 25اپریل سے شروع کی تب ان کی تمام تر توجہہ اس علاقے پر مرکوز تھی۔ موثر کوششوں کے بعد محکمہ ہلت کو کچھ منفرد کامیابیاں ملی۔
مذکورہ مہم جس کا مقصد ریاست کے 74لاکھ بچے جس کی ٹیکہ اندازی کی گئی ہے اور نہیں بھی کی گئی ہے ‘ جن کی عمر نو ماہ سے پندرہ سال کے درمیان کی ہے اٹھ ہفتوں تک ریاست میں چلائی گئی اور اب جبکہ اس وقت ختم ہونے کو آرہا ہے تب 99.01فیصد کا نشانہ پورا کیاجاچکا ہے۔
تاہم ہلت ورکرس کے لئے مقرر کیاگیا نشانہ پورا کرنا ضروری تھا ‘ بالخصوص ایسے ماحول میں جب ٹیکہ اندازی کے متعلق ذہن بنالیاگیا ہے۔
سال2017میں صحت عامہ کی تحریک کو اس وقت شدید نقصان پہنچاتھا جب علاقے میں بچوں کی نسبندی کی افواہ تیزی کے ساتھ پھیل گئی تھی‘ جس کے سبب ٹیکہ اندازی کا تناسب 13فیصد رہا۔ اس سال حکومت نے کامیابی کے لئے گاؤں کے بزرگوں اور مذہبی شخصیتوں کا سہارا لیاتھا۔
بالخصوص مسلم اکثریت والے میو علاقے میں۔ کچھ ہفتہ قبل ایک چھیڑ چھاڑ والا ویڈیو مبینہ طور پر وائیرل کیاگیا تھا جس میں ایک سرکاری اسکول کے اندر ٹیکہ اندازی کے بعد ایک بچے کو سانس لینے میں دشواری پیش آرہی ہے۔
مذکورہ ویڈیو اصل میں کرناٹک اور ٹاملناڈو کا تھا جہاں پر حکومت نے ایم آر ٹیکہ اندازی کی شروعات عمل میں لائی تھی۔ اس طرح کا کوئی منصوبہ میوات کے لئے کچھ ماہ سے نہیں چل رہاتھا کیونکہ جو نقصان ہوا تھا اس کی بھرپائی عمل میں آچکی ہے۔پینگاؤں اور اس کے اطراف واکناف کے گاؤں میں زبانی طور پر افواہیں پھیلانے کا کام بھی کیاگیا ہے ۔
تیر گاؤں کے بزرگ او رد س بچوں کے دادا خورشید احمد نے کہاکہ ’’ یہاں پر زیادہ لوگ انٹرنٹ کا استعمال نہیں کرتے ہیں۔ لوگ گاؤں کے باہر جاتے ہیں‘ وہاں اس قسم کی افواہیں سنتے ہیں‘ ویڈیو ز دیکھتے ہیں اور بدگمانیوں کے ساتھ واپس آتے ہیں۔ اور پھر افواہیں پھیلنا شروع ہوجاتی ہیں۔
اس کو ختم کرنا مشکل ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیںیہاں کے لوگ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں‘‘۔ ہلت ورکرس کے مطابق انہوں نے کہاکہ جب تک ہلت ورکرس کی ان تک رسائی نہیں ہوئی تھی انہیں بھی ٹیکہ اندازی کے متعلق خدشات تھے