افطار پارٹی اور کپڑے نہیں، مسلم تحفظات چاہئے

پرانے شہر میں میٹرو ریل ، ڈبل بیڈروم مکانات کا وعدہ کب پورا ہوگا، 600 روپئے کے ملبوسات سے مسلمانوں کو بہلانے کی کوشش

حیدرآباد ۔ 22 ۔ مئی (سیاست نیوز) ٹی آر ایس حکومت نے اقتدار کے چار سال مکمل کرلئے لیکن اہم وعدوں کی تکمیل میں ناکامی کے باعث مسلمانوں میں مایوسی پائی جاتی ہے ۔ رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی دعوت افطار کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ سرکاری سطح پر شہر اور اضلاع میں دعوت افطار کا اہتمام کرتے ہوئے غریب مسلم خاندانوں میں ملبوسات کی تقسیم کا منصوبہ ہے۔ اس کے علاوہ ٹی آر ایس کی جانب سے بھی افطار پارٹیوں کا اہتمام کرتے ہوئے مسلمانوں کو خوش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ افطار پارٹیوں سے مسلمانوں کے مسائل کی یکسوئی نہیں ہوسکتی۔ مسلمانوں کی پسماندگی کا خاتمہ محض دعوت افطار سے ممکن نہیں۔ حکومتوں میں مسلمانوں کو خوش کرنے کیلئے ہمیشہ اس طرح کے حربے استعمال کئے تاکہ خود کو سیکولر اور مسلمانوں کا ہمدرد ظاہر کرسکیں۔ کانگریس پارٹی کی جانب سے شروع کردہ اس روایت کو تلگو دیشم اور ٹی آر ایس حکومتوں نے جاری رکھا ہے۔ ٹی آر ایس نے مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا لیکن آج تک اس سلسلہ میں کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی۔ مسلمانوں کے جلسوں میں خوش کرنے کیلئے یہ اعلان ضرور کیا جاتا ہے کہ حکومت تحفظات کی فراہمی میں سنجیدہ ہے لیکن سنجیدگی کے اظہار کا کوئی ثبوت عملی طور پر دکھائی نہیں دیتا۔ اسمبلی میں محض بل کی منظوری سے تحفظات کی فراہمی ممکن نہیں ہے۔ مرکز نے تحفظات کے بل کو غیر دستوری قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ۔ حکومت نے مرکز کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات کا جواب دینے کا دعویٰ ضرور کیا لیکن جب تک مرکز میں بی جے پی حکومت برسر اقتدار ہے، تحفظات کی بل کی منظوری ممکن نہیں۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے مرکز کی جانب سے بل کو مسترد کئے جانے پر سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کا اعلان کیا تھا لیکن 6 ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک اس سلسلہ میں کوئی پیشرفت نہیں کی گئی۔ کیا چیف منسٹر سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کے اعلان کو فراموش کرچکے ہیں یا پھر وہ تحفظات کے وعدہ کو بھول گئے۔ مرکز نے جب بل واپس کردیا تو حکومت کو چاہئے

تھا کہ فوری سپریم کورٹ سے رجوع ہوتی۔ جس طرح ٹاملناڈو میں 69 فیصد تحفظات کو دستوری تحفظ حاصل ہے ، اسی طرح تلنگانہ میں اضافی تحفظات کو سپریم کورٹ کا تحفظ حاصل کیا جاسکتا تھا ۔ تحفظات کا مسئلہ شاید دوبارہ عام انتخابات کے وقت منظور عام پر آئے گا ۔ مسلمانوں کی تائید حاصل کرنے کیلئے انتخابات سے قبل کے سی آر حکومت کوئی نیا اعلان یا پھر سپریم کورٹ میں درخواست داخل کرسکتی ہے۔ ٹی آر ایس کا مقصد مسلمانوں کی تائید حاصل کرنا ہے، بھلے ہی جھوٹے وعدوں کے ذریعہ کیوں نہ ہو۔ اب جبکہ نومبر میں وسط مدتی انتخابات کی پیش قیاسی کی جارہی ہے، ٹی آر ایس حکومت کو دیگر وعدوں کے سلسلہ میں عوامی سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ پرانے شہر میں میٹرو ٹرین اور ڈبل بیڈروم مکانات کی تعمیر جیسے اعلانات اب تک کاغذ پر ہیں۔ حکومت نے دونوں پراجکٹس کے سلسلہ میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ۔ میٹرو ریل پراجکٹ کا کام آئندہ سال شروع کرنے کا اعلان کیا گیا جو محض انتخابی وعدہ کے سواء کچھ نہیں۔ صرف مسئلہ کو ٹالتے ہوئے پرانے شہر کے عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے ۔ پرانے شہر میں کسی بھی مقام پر ڈبل بیڈروم مکانات کی تعمیر کا آغاز نہیں ہوا۔ ان حالات میں عوام کا مطالبہ ہے کہ انہیں حکومت کی افطار پارٹی اور رعایتی ملبوسات کی ضرورت نہیں۔ اگر حکومت واقعی مسلمانوں کو خوش دیکھنا چاہتی ہے تو وہ 12 فیصد تحفظات ، پرانے شہر میں میٹرو ریل اور ڈبل بیڈروم مکانات کی تعمیر کو یقینی بنائے۔ ہر سال افطار اور کپڑوں کی تقسیم پر 25 کروڑ روپئے کے خرچ سے مسلمانوں کا بھلا نہیں ہوگا۔ دعوت افطار اور ملبوسات کی تقسیم محض سستی شہرت کا ایک ذریعہ ہے۔ جاریہ سال جون کے پہلے ہفتہ میں چیف منسٹر کی دعوت افطار کا منصوبہ ہے ۔ ریاست بھر میں 4 لاکھ غریب مسلمانوں میں 31 مئی سے ملبوسات کی تقسیم کا آغاز ہوگا۔ یہ ملبوسات 600 روپئے کی رعایتی قیمت پر حاصل کئے جاتے ہیں۔ محض 600 روپئے میں ایک ساڑی ، شرٹ شلوار اور کرتا پاجامہ کسی کمپنی سے حاصل کیا جاتا ہے۔ 600 روپئے میں تین اشیاء کی سربراہی میں معیار کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ بہترین معیار کا کوئی ایک ایٹم بھی 600 روپئے میں حاصل نہیں ہوتا لیکن یہاں تو ایک نہیں بلکہ تین جوڑے 600 روپئے میں حاصل کئے جارہے ہیں۔ ایک جوڑے کی قیمت محض 200 روپئے بنتی ہے ۔ کوئی بھی کمپنی محض دو سو روپئے میں معیاری ملبوسات کس طرح سربراہ کرسکتی ہے۔ حکومت کو افطار پارٹیوں کے ذریعہ خوش کرنے کے بجائے مسلمانوں کی ترقی کے ٹھوس قدم اٹھانے چاہئے ۔