رام پور سے نو مرتبہ کے رکن اسمبلی اعظم خان کی اپنے حامیوں کے ہمراہ ایک بڑی زندگی ہے۔ ان کے نام کے ساتھ غیر معمولی وفاداری اور مقامی لوگوں میں ناقابل یقین مخالفت جڑی ہے۔
رام پور۔ رات کے تقریبا8:30کا وقت تھا ‘ اور مغربی مصیبت اترپردیش کے اس ٹاؤن میں راحت بن کر برسی ۔ٹاؤن کے قلب میں شاہ آباد گیٹ کے قریب لوگوں میں جوش اور جذبہ کافی تھا‘ جہاں پر سینکڑوں مسلمانوں برسات میں بھی عبداللہ اعظم خان کو سننے کے لئے کھڑے تھے جو سماج وادی پارٹی کے امیدوار اعظم کے بیٹے ہیں۔
اس ہفتہ الیکشن کمیشن نے سینئر اعظم پر بی جے پی امیدوار جیا پردا کے خلاف متنازعہ ریمارک پر 72گھنٹوں کا امتناع عائد کیا ہے اور جونیر اعظم ان کے لئے ریالی میں حصہ لے رہے تھے۔
وہ اب تک نہیں پہنچے تھے ‘ مگر مقررین اپنی تقریروں او رشاعری کے ذریعہ سامعین کو مصروف کررکھا تھا۔شہہ نشین سے ایک مقررنے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ’’ یہ الیکشن اعظم خان اور فلم اداکارہ( بی جے پی امیدوار جیاپردا) کے متعلق نہیں ہے۔
یہ الیکشن اعظم بمقابلہ وزیراعظم کی جنگ ہے۔ ہمارا شیر دہلی میں پارلیمنٹ کے اندر دھاڑے گا‘‘۔
جس طرح توقع کی تھی ٹھیک اسی طرح سامعین کے نعروں کی گونج اٹھی ۔رام پور سے نو مرتبہ کے رکن اسمبلی اعظم خان کی اپنے حامیوں کے ہمراہ ایک بڑی زندگی ہے۔ ان کے نام کے ساتھ غیر معمولی وفاداری اور مقامی لوگوں میں ناقابل یقین مخالفت جڑی ہے۔
ان میں قابلیت ہے وہ ہمیشہ جیت حیاصل کرتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ رام پارلیمانی حلقہ کے نصف ووٹرس مسلمان ہیں۔رام پور جنکشن میں کی ایک دوکان کے مالک رحمن نے کہاکہ ’’ یہ شہر اعظم صاحب کا ہے۔ انہیں کوئی ہرا نہیں سکتا‘‘۔مگر پچھلے کچھ سالوں میں کچھ کوتاہیاں ہوئی ہیں۔
انہوں نے جیا پردا کو رام پور کی سیاست میں متعارف کروایا اور 2004کے پارلیمانی الیکشن میں ان کی جیت درج کرائی ۔
اس کے فوری بعد جیا پردا کے سیاسی رہنما امر سنگھ سے مخالفت کے بعد اعظم کی کھل کر مخالفت کرنے کے باوجود وہ 2009کا الیکشن بھی جیت گئیں۔سال2014کا الیکشن بی جے پی نے جیتا اور اب جیاپردا خوداعظم کے پارلیمانی الیکشن میں پہلے مقابلے میں امیدوار بن گئی ہیں۔
بی جے پی کے ترجمان اور پارٹی کے رام پور انچارج ڈاکٹر چندرا موہن نے کہاکہ ’’ رام پور کا مقابلہ اعظم او رکوئی اعظم نہیں کے متعلق ہے۔
پردا کی ان کے ساتھ ایک بڑی لڑائی ہے۔ اعظم کو جو شکست دینے چاہتے ہیں ان کے جیا پردا ہی ایک موقع ہے‘‘۔ جہاں پر سماج وادی پارٹی کے سینئر لیڈر کے لئے آسان جیت تھی وہاں پر جیا پردا نے سخت مقابلہ کھڑا کردیاہے۔
رام پور میں رائے دہی تیسرے مرحلے میں23اپریل کو مقرر ہے او رمغربی اترپردیش کے اس ٹاؤن میں 4.67ملین ووٹرس ہیں‘ جس میں پچاس فیصد مسلم آبادی ہے۔
ہندو آبادی میں دلت او ر لودھا کافی اہم رول ادا کرنے والے رائے دہندوں میں یہا ں شمار کئے جاتے ہیں۔ بی جے پی اعلی ذات اور پسماندہ طبقات کے ووٹ اکٹھا کرنے میں جٹی ہوئی ہے اور اس کو امید ہے کہ مسلم ووٹوں کی تقسیم کانگریس امیدوارکی وجہہ سے ہوگی ‘ جس کو لگتا ہے کہ اعظم کی مخالفت میں مسلم رہنماء ان کو مدد کریں گے۔
سال2014کے لوک سبھا الیکشن میں کانگریس نے رام پور سے 1.5لاکھ ووٹ حاصل کئے تھے جس میں بی جے پی نے سماج وادی اپرٹی کو 23,435ووٹوں سے شکست دی تھی ۔
سال2017کے الیکشن میں سماج وادی پارٹی نے رام پور کی پانچ اسمبلی سیٹوں میں سے تین پر جیت حاصل کی تھی او رماباقی دو پر بی جے پی کو کامیابی ملی۔ اعظم کی کامیابی کی امیدیں دلت مسلم ووٹوں کے اشتراک سے بڑھ گئی ہیں جس کے انحصار کی بنیاد سماج وادی پارٹی سے الائنس ہے۔
ایک جیت رام پور میں اعظم کی مقبولیت کو بڑھا وا دی گی اور شکست مقبولیت میں گروٹ کا سبب بنے گی ۔