تین لوگوں کی ہلاکت اور پچھلے پانچ دنوں میں پبلک پراپرٹی کو نشانہ بنایاجارہا ہے۔ یہاں پر آپ کی جانکاری کے لئے ریاست میں مذہبی گروپ کی برہمی کی وجوہات پیش کی جارہی ہیں۔
پچھلے جمعرات کو ایک کمیٹی کی جانب سے مستقل رہائشی سرٹیفیکٹ [(پی آر سی) کے اروناچل پردیش کے چھ قبائیلی طبقات کے لئے اجرائی کے متعلق سفارشات کے بعد ریاست سلگ رہا ہے۔
یہ عمل ایک زمرہ بندی ہے جو مذکورہ طبقات کو فلاح وبہبود او رتحفظات سے جوڑنے کاکام کرے گا۔
تین لوگ اس میں مار ے گئے اور پچھلے پانچ دنوں میں بے شمار پبلک پراپرٹیز کو نقصان پہنچایاگیا۔ یہاں پر مذہبی گروپ کی ریاست میں برہمی کے کچھ وجوہات پیش کئے جارہے ہیں
پی آر سی کیاہے؟۔
یہ مستقل رہائشی سرٹیفیکیٹ ہے جو ریاست میں ایک شخص کی شہریت کو ثابت کرتا ے اور تعلیمی اداروں میں داخلوں اور سرکاری ملازمتوں کے لئے ان کے مورثے تعلق میں مددگارثابت ہوتا ہے۔
ارونا چل پردیش میں کس کو پی آر سی ملتا ہے؟
وہ طبقات جو بطور ارونا چل پردیش قبائیلی(اے پی ایس ٹی)کے طور پر درج ہیں انہیں پی آر سی موقف فراہم کیاجاتا ہے کیونکہ انہیں ریاست کا حقیقی باشندہ مانا جاتا ہے ۔
دیگر کئی طبقات بھی مذکورہ موقف کا مطالبہ کررہے ہیں تاکہ انہیں ملکیت سے منسلک فوائد مل سکیں۔
مذکورہ غیر اے پی ایس ٹی طبقات کا کہنا ہے کہ جب ان کے نام لینڈ ریکارڈس میں ہیں‘ انہیں ’’ پٹا‘‘ جاری نہیں کیاجاتا۔
تنازعات کی اہم جڑ کیاہے؟
آسام کی پڑوسی ریاست میں غیر اے پی ایس ٹی طبقات کی بڑی آبادی ہے اور وہ ریاست میں ملکیت سے منسلک فوائد کے خوب مزے لوٹ رہے ہیں۔
ان میں سے کئی طبقات کوآسام میں ایس ٹیز کے طور پر تسلیم کیاگیا ہے وہیں مورانوں اور قبائیلی آسام میں دیگر پسماندہ طبقات کے زمرہ میں آتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ انہیں ارونا چل پردیش میں ٹھیک اسی طرح کے حقوق ملنے چاہئے‘ مذکورہ اے پی ایس ٹی طبقات اس کی مخالفت کررہے ہیں
کیوں اے پی ایس ٹی کمیونٹیاں نہیں چاہتی کہ دیگر طبقات کو پی آر سی ملے؟
اے پی ایس ٹی طبقات کا کہنا ہے کہ دیگر کمیونٹیوں کو پی آر سی کی فراہمی بنگال ایسٹرن فرانڈیار(ریگولیشن)ایکٹ 1873کی خلاف ورزی ہوگی‘ جس کے تحت تمام غیر رہائشوں اور اروناچل پردیش آنے والوں کو ریاست آنے کے لئے مستقل سفر اور یہا ں رہنے کی اجازت دی گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ دیگر طبقات کو قیام کی اجازت ریاست میں کئی غیر قبائیلوں کے داخلے کا سبب بنے گی۔ سال2018میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی ریاستی حکومت نے اعلان کیاتھا کہ وہ چھ طبقات دیوریس‘ سونوالوں‘ کاچاریوں‘ میشہنگوں ‘ قبائلیوں اور مورنوں کو پی آر سی فراہم کرے گی۔
مشترکہ اعلی سطحی کمیٹی کی اس مسلئے پر رپورٹ داخل کرنے سے قبل پارٹی نے یہ اعلان کردیاتھا
فبروری21-22کو کیا واقعہ پیش آیا؟۔
ریاستی اسمبلی میں کمیٹی کی جانب سے رپورٹ داخل کرنے کے خلاف اٹھ تنظیموں نے چوبیس گھنٹوں کا اروناچل پردیش بند کا اعلان کیا۔
اس کے بعد ایٹانگر کی سڑکوں پر شدید تشدد اور توڑ پھوڑ کے واقعات رونما ہوئے۔
فبروری 22کے روز چیف منسٹر پیما کھانڈو نے اعلان کیا کہ جاریہ اسمبلی اجلاس میں رپورٹ پیش نہیں کی جائے گی۔
حکومت کی منشاء اس مسلئے کو زندہ رکھناتھا کیونکہ اروناچل پردیش میں 2019کے لوک سبھا الیکشن اور اسمبلی الیکشن ایک ساتھ ہونے والے ہیں۔
یہ مسئلہ سیاسی لڑائی میں کیوں تبدیل ہوگیا ہے؟
کچھ اے پی ایس پی طبقات کا احساس ہے کہ بی جے پی کی زیرقیادت اس مسلئے کو سیاسی خاتمہ کے طور پر ’’مقامیوں‘‘ کے قیمت پر دیکھ رہی ہے۔
کچھ تنظیمیں طویل مدت سے ریاست میں رہنے والے غیر قبائیلیوں کو بھی پی آرسی فراہم کرنے کی حمایت کررہے ہیں‘ جس کے لئے صرف تعلیم اورملازمت کی ضرورت کے استعمال کی شرط رکھی گئی ہے۔
کانگریس اور بی جے پی دونوں کا کہنا ہے کہ پی آرسی کے مطالبہ واجی ہے‘ مگر دونوں ایک دوسرے کو کشیدگی کا ذمہ دار ٹہرارہے ہیں
کیا یہ معاملے ختم ہوگا؟۔
پچھلے پانچ دنوں سے ‘ تین لوگوں کی موت ‘ ڈپٹی چیف منسٹر کا خانگی گھر اور ڈپٹی کمشنر کا دفتر نذر آتش کردیاگیا ہے۔
چیف منسٹر کے گھر پر بھی حملہ کیاگیا۔ اتوار کی رات کھانڈو نے اعلان کیاتھا کہ پی آر سی ریاست میں نہیں لاگو کیاجائے گا۔
پیر کے روز کوئی تشدد کا واقعہ پیش نہیں آیا‘ مگر حالات کشیدگی کاشکار بنے ہوئے ہیں