امپال:انتخابات میں حصہ لینے پر اپنے خلاف فتویٰ کی اجرائی کے باوجود منی پور کی پہلی مسلم خاتون امیدوار نجمہ بی بی نے کہاکہ وہ گھریلو تشدد کے خلاف اور مسلم خواتین کی فلاح وبہبود کے لئے اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں گی۔
پی ٹی ائی سے بات کرتے ہوئے نجمہ بی بی نے کہاکہ ’’مجھے اپنی زندگی کی پرواہ نہیں ہے ‘ مگر میں جب تک زندہ ہوں گھریلو تشدد کے خلاف اپنی جدوجہد کو جاری رکھوں گی اور معاشرے میں مسلم خواتین کی سماجی ترقی کی حمایت کرتی رہوں گی۔
میری زندگی بچپن سے ہی جدوجہد میں گذری ہے ‘ مجھے کسی دھمکی کی پرواہ بھی نہیں ہے‘‘۔نجمہ بی بی دراصل اروم شرمیلہ کی پارٹی پی آر جے اے سے امیدوار ہے اور وہ وابگائی اسمبلی حلقہ سے مقابلہ کررہی ہیں۔
نجمہ نے بتایا کہ وہ اے ایف ایس پی اے کے خلاف اروم شرمیلہ کے16سال کی بھوک ہڑتال سے کافی متاثر ہیں اور جب شرمیلہ نے پارٹی قائم کی ‘ تب انہوں نے پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ کرلیا۔نجمہ نے کہاکہ ’’ اروم کی جدوجہد نے مجھے ہمیشہ اپنی طرف متوجہ اور متاثر کیا۔
تمام مشکلات کے خلاف ان کی مسلسل لڑائی یہ مثال ہے کہ منی پور کی عورتیں کس قدر ہمت والی ہوتی ہیں۔ لہذا میں نے سیاست میں شمولیت کا فیصلہ کیا! میں نے فیصلہ کیا ہے ان کے شانہ بہ شانہ کھڑی رہوں گی۔
اگر میں رکن اسمبلی منتخب ہوجاتی ہوں تو‘ میری پالیسی سونچ تعلیم ‘ خواتین کے مسائل‘ اے ایف ایس پی اے کے خلاف لڑائی’ چھوٹی صنعت کا فروغ اور کئی ایسے کام ‘ جس کے ذریعہ میں معاشرے کی مدد کرنا چاہتی ہوں جس میں ہمارا قیام ہے‘‘۔
مگر سیاست میں ان کی بڑھ چڑھ کا حصہ داری اس وقت وبال جان بن گئی جب اپنے حلقہ وابگائی میں سناتھیل مامانگ لیاکائی کے مذہبی قائدین نے برسرعام فتوی جاری کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کیاکہ ان کی موت کے پاس کوئی انہیں یہاں کے قبرستان میں ’ قبر‘ کے لئے جگہ نہیں دیگا۔
مذکورہ گاؤں میں سیاست میں شمولیت کی وجہہ سے ان کے متعلق بات کرنا بھی حقارت سمجھ رہے ہیں۔نجمہ بی بی نے کہاکہ ’’ میں نے اپنے زندگی کیا کیا ہے وہ اہمیت کاحامل ہے ‘ مگر میں معاشرے کی خواتین اونچا مقام فراہم کرسکتی ہوں تو یہ میرے لئے سب سے بڑا سکون ہوگا۔
میرے مرنے کے بعد میرے ساتھ کیاہوگا اس کے متعلق جان کر مجھے کیا کرنا ہے‘‘۔نجمہ نے کہاکہ کچھ لوگ ہی جونہایت قدامت پسند ہیں اور وہ ہمیشہ میرے راستے میں رکاوٹ بنتے رہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ’’ جب میں اجلاس میں جانے کے لئے سیکل کا استعمال کرتی ہوں تو کچھ لوگ مجھ پر ہنستے ہیں۔ اس سے مجھے حوصلہ ملتا ہے میں جو کررہی ہوں اس کچھ خاص ضروری ہے‘ جسکو میں سنبھال رکھا ہے او ریہی وجہہ ہے کہ وہ لوگ مجھ پر ہنستے ہیں‘‘۔
نجمہ کی زندگی کا سفر مشکلات سے بھرا ہوا ہے ‘ وہ اس سے مقابلہ کرتے ہوئے یہاں تک پہنچی ہے اور اب وہ منی پور کی پہلی مسلم خاتون بن گئی کو اسمبلی انتخابات کی امیدوار بھی ہے۔طعنوں اور ہراسانی کے باوجود طویل مسافت کرکے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والی نجمہ دسویں جماعت تک پڑھائی کی اور وہ واحد لڑکی تھی کلاس میں جبکہ گھر کی پہلی لڑکی جس نے دسویں جماعت تک پڑھائی کی ہے۔
دسویں جماعت کی تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ ہی نجمہ پر شادی کے لئے دباؤ ڈالا جانے لگا۔ مگر وہ گھر سے بھاگ گئی اور ایک ایسے شخص سے شادی کرلی جس سے وہ ایک یادومرتبہ ہی ملاقات کی تھی۔ نجمہ کے ساتھ شوہر کی بدسلوکی کی ابتداء ہوئی اور چھ ماہ کے اندر اس نے شوہر سے علیحدگی اختیارکرلی۔
علیحدگی کے بعد انہیں احساس ہوا کہ ایک عورت کے لئے خود انحصاری اور معاشی آزادی کتنی اہمیت رکھتی ہے۔ اس نے مقامی خواتین کے لئے ایک پروگرام کی شروعات کی جس کو نام دیا’ چینگ ماروپ‘ چاول بچت فنڈ۔نجمہ خواتین کی مدد اور خواتین کے حقوق کی وکالت میں ہمیشہ پیش پیش رہتی ہے مگر جنسی مساوات پر سال2001میں ورک شاپ کا انعقاد ان کی زندگی کا اصل موڑ ثابت ہوا۔
انہوں نے کہاکہ ’’ میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ میں ہرکسی ممکنہ مددکروں گی ‘ میں انہیں بھروسہ دلانا چاہتی ہوں کہ خواتین ہراسانی ‘ اور تشدد کا سامنا نہیں کریں گی‘‘۔ فی الحال نجمہ ایک مفلس خواتین کے لئے ایک شیلٹر ہوم چلاتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’’ سال 2006میں مذہبی قائدین نے میرے خلاف فتویٰ جاری کردیا گاؤں میں میرا سماجی بائیکاٹ کیاجاتا ہے ‘ مجھے علاقے کی باولی سے پانی لینے کی اجاز ت نہیں ہے ‘ میں گاؤں کی کسی دوکان سے کچھ بھی نہیں خرید سکتی۔
لہذا میں نے اسے استعمال ہی کرنا چھوڑ دیا‘ اس سے میرے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میری زندگی کا مقصد خواتین کو سماجی طور پر خود مختار بنانا اور انہیں بدسلوکی سے بچانا ہے‘‘۔
نجمہ کے مقابلہ پانچ او رامیدوار بشمول کانگریس اور بی جے پی کے ہیں۔ نجمہ سیکل پر سوار ہوکر اپنے اسمبلی حلقہ کی عوام سے ملاقات کے لئے جاتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ’’ میں جیتوں یا ہاروں ‘ میں اپنا کام جاری رکھوں گی او رکوئی مجھے اس سے روک نہیں سکتا‘‘۔