نئی دہلی۔ قدیم زمانے کے قصوں او رکہانیوں میں ہم عام طور پر یہ بات سنتے تھے کہ بادشاہ وقت کے سامنے کوئی اونچی آواز میں بات نہیں کرتا تھا اور اگر بادشاہ سلامت کی سوار کسی سڑک پر سے گذتی ہے تو رعایہ اپنے سرجھکاکر کھڑی ہوجاتی ‘ بادشاہ سلامت کے سامنے اونچے آواز میں بات کرنے پر سزائے موت کا فرمان جاری ہوجاتا اور کسی کا سرقلم کردیا جاتا تو کسی کی زبان کاٹ دی جاتی ۔
مگر جمہوریت میں اس طرح کی قواعد نہیں ہے جبکہ ہندوستان جو دنیا کا سب بڑا جمہوری ملک ہے اور یہاں پر اگر اس طرح کا کوئی فرمان جاری کرنے بات سامنے آتی ہے تو ہمارا چونک جانا واجبی ہے ۔
جی ہاں اسی طرح کا فرمان اتھاراکھنڈ کے چیف منسٹر نے جاری کرتے ہوئے جمہوری نظام پر سوال کھڑے کردئے ہیں۔ انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق چیف منسٹر اتراکھنڈ ترویندرا روات نے ان کے سامنے بے ادبی کرنے اور غیرمہذب زبان استعمال کرنے والے ایک اسکول پرنسپل کو فوری طورپربرطرف کرتے ہوئے گرفتار کرنے کا فرمان جاری کیاہے۔
مذکورہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب دہرادون میں چیف منسٹر کے جنتا دربار کے دوران یہ 57سالہ اسکول پرنسپل اپنی موجودہ تعیناتی سے کسی دیہی علاقے میں اپنا تبادلہ کی خواہش کررہی تھیں۔
اخبار ٹربیون کی خبر کے مطابق اترکاشی ضلع کے علاقے ناؤ گاؤں کی پرائمری اسکول میں پرنسپل کی خدمات انجام دے رہی اترا بہوگانہ نے دعوی کیا ہے کہ وہ پچھلے پچیس سالوں سے دیہی علاقوں میں خدمات انجام دیتی آرہی ہیں اور یہی وجہہ ہے کہ انہوں نے تبادلہ کے لئے درخواست پیش کی تھی۔
ایک ویڈیو میں جو سوشیل میڈیا پر گشت کررہا ہے اس میں دیکھا یاگیا ہے کہ اپنی درخواست کومسترد کرنے پر بہوگانہ روات سے بحث کررہی ہیں۔ انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق آخر کار چیف منسٹر روات بے قابو ہوگئے اور حکم دیا کہ’’ اسی فوری برطرف کرواور پولیس حراست میں لے لو۔
مذکورہ ویڈیو میں مزیددیکھایا گیا ہے کہ سی آرپی سی کے دفعہ 151 کے تحت گرفتاری میں لینے سے قبل بہوگانہ چیف منسٹر روات سے بدزبانی کررہی ہے ۔
اے این ائی کی اطلاع کے مطابق بہوگانہ کو جمعرات کی رات میں چھوڑ دیاگیا۔واقعہ کے بعد روات نے کہاکہ یہ پلیٹ فارم عوامی مسائل کی سنوائی کے لئے منعقد کیاجاتا ہے اور سرکاری ملازمین کے تبادلوں کے لئے موضوع مقام نہیں ہے۔
ریاست میں تبادلوں کا ایکٹ کہتا ہے کہ ایسی درخواست پر غور کیاجانا چاہئے۔ چیف منسٹر اتراکھنڈ نے مزیدکہاکہ جنتادربارکے دوران ’بدزبانی اور بے دابی‘ کی وجہہ سے پرنسپل کی برطرفی عمل میں آئی ہے۔
بہوگانہ نے بتایا کپ’’ اتر کاشی گاؤں میں تعیناتی سے قبل میرے تعینانی اترکاشی کے دیہی علاقے میں تھی۔
میرے شوہر اپنے دوبچوں کی دیکھ بھال کرتے تھے مگر ان پچھلے سال اگست میں ہوئی ان کی موت کے بعدمیرے بچوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے‘ اور میں دیہی علاقو ں میں کام کرنے والی قدیم ورکربھی ہوں‘‘