اب میڈیا کو سانپ کیوں سونگھ گیا؟ 

میڈیا کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس خبر کو بھی اس طرح پیش کرے جس طرح اس نے نام نہاد لوجہاد یاہادیہ کی شادی کو ایک جبریہ شادی بناکر پیش کیاتھا۔بقلم سہیل انجم
حالیہ دنوں میں ایک بہت اہم خبر ائی جو اس بات کی مستحق تھی کہ اسے بھرپور کوریج ملے ۔ نہ صرف پرنٹ بلکہ الکٹرانک میڈیا میں بھی ۔ الکٹرانک میڈیا پر اس کی زیادہ سے زیادہ کوریج کی ضرورت تھی۔ لیکن وہ خبر چند انگریزی اخباروں میں سرسری طور سے گذر گئی۔

ایسا محسوس ہوا کہ جیسی الکٹرانک میڈیا کو اس کی ہوا تک نہیں لگی ۔ وہ انگریزی روزنامہ ہندوستان ٹائمس کی خصوصی خبر تھی جو دہشت گردانے واقعات کی چھان بین کرنے والے تحقیقاتی ادارے این ائی اے کے ایک سینئر اہلکار کے حوالے سے تھی ۔

اس کو انگریزی کے بعض اخبارات نے ہندوستان ٹائمز کے حوالے سے شائع کیا۔قارئین اس بات سے واقف ہیں کہ کس طرح ہندوؤں کے ایک طبقے کو مسلمانوں کے خلاف ورغلانے کے لئے بعض ہندولڑکیوں کو مسلم نوجوانوں سے شادی کولوجہاد کا نام دیاگیا ہے او رآر ایس ایس اور بی جے پی کے بڑے رہنما تک مسلمانوں کے خلاف پروپگنڈہ کرنے لگے ۔

بالخصوص انتخابات میں اس کا زور شور سے پرچار کیاجاتار ہا ہے۔ یہاں تک تودروغ گوئی کی گئی کہ ایک سازش کے تحت خلیج سے پیسے آتے ہیں اور ہند و لڑکیوں کو جال میں پھانس کر ان سے شادی کرنے اور پھر ان کا مذہب تبدیل کرانے کے لئے ایک ایک مسلم نوجوان کو دس دس لاکھ روپے دیے جاتے ہیں۔

جب کیرالاکی ایک 21سالہ اکھیلا نے اسلام کا مطالعہ کیا اور پھر قبول اسلام کرنے کے بعد اپنا نام ہادیہ رکھااور ایک مسلم نوجوان شافعین جہا ں سے شادی کی تو لوجہاد کے پروپگنڈے کی دھار تیزہوگئی ۔

چونکہ اس قسم کے واقعات کیرالا میں زیادہ ہوئے تھے اس لئے سپریم کورٹ کے حکم پر این ائی اے 89بین مذہبی شادیوں کی ایک فہرست بنائی او ران میں سے گیارہ کی تحقیقات کی تواسے لو جہاد کا کوئی ثبوت ہی نہیں ملا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ اب ختم ہوچکے ہیں اور وہ اس بارے میں عدالت میں مزید کوئی رپورٹ داخل ہیں کرے گی۔

این ائی اے کے مطابق تمام شادیوں میں مشترکہ پہلو یہ نکلا کہ سماجی تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا( پی ایف ائی) کے اہل کار ایسے معاملات میں شامل رہے ہیں ۔ لیکن ان کے خلاف ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ قانونی کاروائی کی جاسکے۔

این ائی اے کے اہکارکے مطابق کیرالا میں تبدیلی مذہب جرم نہیں ہے اور جن مردوں اورعورتوں نے تبدیلی مذہب کی وہ ائین کے دارے میں کی ۔ ان گیارہ میں سے چار شادیوں میں ہندو مردوں نے اسلام قبول کیا۔باقی معاملات میں ہندو عورتوں سے مسلمانوں سے شادی کی لیکن انہو ں نے مذہب تبدیل نہیں کیا۔

یہ یہ ذکر بھی محل ہوگا کہ چند ماہ قبل گجرات کی ایک ہندوعورت نے اپنے مسلم شوہر پر الزام عائد کیاتھا کہ وہ اسے سعودی عرب لے جاکر داعش کے ہاتھوں فروخت کرنے کی سازش کررہاہے ۔ اس رپورٹ پر اس کے شوہر 27سالہ محمد ریاض کو جدہ سے واپس آتے ہوئے گرفتارکرلیاگیاتھا۔

یہ کیس بھی این ائی اے کے سپرد کیاگیا او راس معاملے میں بھی کوئی ثبوت ملا۔ پی ایف ائی کے قانونی مشیر کے پی معمر شریف کا کہنا ہے کہ لوجہاد کا نظریہ دائیں بازو کی ہندو تنظیموں نے مسلمانوں کو بدنام کرنے کے ئے کھڑا کیا ہے۔

اب یہ ثابت ہوگیا کہ یہ ایک بے بنیاد مفروضہ ہے۔پی ایف ائی کی سیاسی ونگ ایس ڈی پی ائی کے قومی سکریٹری ڈاکٹر تسلیم رحمانی کے مطابق پی ایف ائی چونکہ دعوت دین او رانسانی فلاح وبہبود کاکام کرتا ہے اس کے لئے انہیں نشانہ بنایاجارہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔