اب امریکہ میں ’کافی‘ والا صدر بننے کا خواہاں !

واشنگٹن ۔ 6 جون (سیاست ڈاٹ کام) ہندوستان کی جمہوریت کو حقیقی معنوں میں مادر جمہوریت کہنا چاہئے کیونکہ اس ملک میں ایک چائے والا وزیراعظم، چپراسی وزیراعلیٰ، مذہب کے نام پر استحصال کرنے والے بابائیں چیف منسٹرس اور منسٹرس کے عہدوں پر باآسانی فائز ہوسکتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ہمارے وزیراعظم نریندر مودی ہندوستانی جمہوریت کیلئے تازیانہ عبرت بھی ہے اور جمہوریت کی بہترین مثال بھی ہیں۔ تازیانہ عبرت اس لئے کہ 2002ء گجرات فسادات میں ان کے کردار سے ہر کوئی واقف ہے۔ گجرات میں جتنے بھی فرضی یا جعلی انکاؤنٹرس ہوئے ان انکاؤنٹرس میں ان کا کیا رول رہا خود سزاء یافتہ پولیس عہدیداروں نے انکشاف کردیا ہے۔ اس کے باوجود وہ جیل میں چکی پیسنے کی بجائے عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہیں جو قانون دستور اور حقوق انسانی کے ساتھ ایک ظالمانہ مذاق نہیں تو اور کیا ہے مودی جی کا قانون سے بچنا ہمارے جمہوری نظام اور اس کے عدلیہ کی کمزوری، بے بسی و بے حسی کا اظہار ہوتا ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہیکہ ہمارے ملک میں جمہوریت ہونے کے باوجود جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا معاملہ چل رہا ہے۔ ہندوستانی جمہوریت کی کامیابی کی بہترین مثال مودی اس لئے ہیکہ ایک چائے والے کو ملک نے عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز کردیا ہے یہ اور بات ہیکہ وہ کسی بھی لحاظ سے اس باوقار عہدہ کے قابل دکھائی نہیں دیتے لیکن چونکہ وہ منتخبہ نمائندہ ہیں اس لئے ہمیں ان کا احترام کرنا چاہئے۔ انہوں نے پہلے چائے فروخت کی پھر ہندوتوا کو فروخت کرنا شروع کیا یعنی آر ایس ایس کے پرچارک بن گئے اور صرف 13 سال کی سیاسی محنت کرتے ہوئے گجرات کے عہدہ چیف منسٹری پر بھی فائز ہوگئے لیکن اس چائے والے کے بارے میں مشہور ہیکہ اس نے ہر اس شخص کو نظرانداز کردیا جس نے اس کی مدد کی تھی۔ اڈوانی اس کی بہترین مثال ہے۔ اڈوانی کے دور عروج میں چائے والے مودی جی کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ جہاں تک مودی جی کے چائے والا ہونے کا سوال ہے دراصل ان کے والد دامودر داس ایک چھوٹی سی چائے کی دکان چلایا کرتے تھے۔ مودی اس چائے کو کیتلی میں ڈالے ودیانگر ریلوے اسٹیشن پر مسافرین کو فروخت کرتے تھے۔ بہرحال مودی نے زندگی میں کبھی چائے فروخت کی یا نہیں اس بارے میں تو مودی اور ان کے ارکان خاندان ہی بہتر جانتے ہیں لیکن مودی نے برسرعام اعلان کیا کہ وہ چائے والے ہیں یہ عوامی ہمدردیاں سمیٹنے کیلئے تھا یا پھر حقیقت عوام کو ہی اس بارے میں تحقیق کرنی چاہئے کیونکہ اب میڈیا پر کسی قسم کا بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ ارے ہاں ایسا لگتا ہیکہ ہندوستان میں ایک چائے والے کے وزیراعظم بننے سے مغربی ممالک کے چائے اور کافی والوں میں اقتدار پر فائز ہونے کی تمنا جاگ اٹھی ہے۔ ایسی شخصیتوں میں کافی کیلئے ساری دنیا میں شہرت رکھنے والے اسٹار بکس کارپوریشن کے سربراہ ہاورڈ شلٹز سرفہرست ہیں۔ وہ کافی ہاؤس سے وائیٹ ہاؤس میں داخل ہونے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ خواب کیا دیکھ رہے ہیں بلکہ منصوبہ بنارہے ہیں۔ عالمی میڈیا کے ذریعہ منظرعام پر آئی رپورٹس کے مطابق شلٹز اس کافی چین سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے امریکہ کے صدارتی انتخابات میں قسمت آزمائی کا منصوبہ رکھتے ہیں چنانچہ اسٹار بکس کارپوریشن کی باگ ڈور اب اس کے چیف اگزیکیٹیو آفیسر مسٹر کیوبن جانسن سنبھالیں گے۔ شلٹز کے بارے میں آپ کو بتادیں کہ انہوں نے اسٹار بکس کارپوریشن کو اس وقت اپنے انتظام میں لیا تھا جب اس کے صرف 11 کافی ہاوز چلا کرتے تھے۔ آج دنیا کے 77 ممالک میں شلٹز کے 28000 کافی ہاؤزس ہیں۔ اس کمپنی کے بعض سرمایہ کاروں کا خیال ہیکہ شٹلز کے جانے کے بعد کمپنی کا کیا ہوگا۔ ان کے اس فیصلہ کے بارے میں کہا جارہا ہیکہ امریکی صدارتی انتخابات میں قسمت آزمانا چاہتے ہیں ویسے بھی وہ سوچ رہے ہوں گے کہ ایک چائے والا ہندوستان کا وزیراعظم اور جوے خانے چلانے والا امریکہ کا صدر ہوسکتا ہے تو ایک کافی والا امریکی صدر کیوں نہیں بن سکتا۔ 64 سالہ شٹلز کے بارے میں مشہور ہیکہ وہ سماجی مسائل پر بلاجھجک بولتے ہیں گذشتہ ہفتہ سی این این کو دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے اپنے سیاسی عزائم کے اشارے دیئے۔