آسام میں مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دیتے ہوئے ہراسانی

پولیس مظالم کے شکار متاثرین سے ’’کاروان محبت‘‘ قافلہ کی ملاقات ، حقائق سے واقفیت
گوہاٹی۔5ستمبر(سیاست نیوز) ملک میں درندگی کو پھیلنے سے روکنے کیلئے خوشگوار ماحول کو فروغ دیا جانا اور ملک کے ہر شہری کو مساوی حقوق دیئے جانے کی ضرورت ہے۔ آسام میں رہنے والے شہریوں کو بنگلہ دیشی قرار دیتے ہوئے انہیں ہراساں کرنے کاسلسلہ بند نہیں ہورہاہے اور اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والوںکو نشانہ بناتے ہوئے خوف کا ماحول پیدا کیا جا رہاہے ۔’کاروان محبت ‘ کے دوسرے دن قافلہ آج آسام کے ضلع گول بارہ پہنچا اور گول بارہ میں 30جون کو شہریت کے لئے جدوجہد کرنے والے ہندستانی شہریوں پر پولیس فائرنگ میں ہلاک ہونے والے یعقوب علی کے والد جناب شمس الحق اور ان کی بیوہ سے ملاقات کرتے ہوئے تفصیلات سے واقفیت حاصل کی ۔اس کے علاوہ کاروان محبت نے ضلع کوکھرا جھار میں قتل کئے گئے طلبہ تنظیم کے صدر رفیق الاسلام احمد کے مکان پہنچ کر ان کے ارکان خاندان کو پرسہ دیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایس آئی ٹی کو متحرک کرتے ہوئے فوری خاطیوں کی گرفتاری کے اقدامات کئے جائیں ۔ کاروان محبت کے قافلہ میں موجود ڈاکٹر رام پنیانی ‘ مسٹر ہرش مندر‘ مسٹر جان دیال کے علاوہ دیگر نے ان مہلوکین کے افراد خاندان کے علاوہ اطراف کے شہریوں سے ملاقات کرتے ہوئے تفصیلات حاصل کیں۔ 30سالہ رفیق الاسلام احمد کے قتل کے سلسلہ میں تفصیلات سے واقف کرواتے ہوئے ان کے والد عباس الدین احمد روپڑے ۔انہوں نے بتایا کہ ان کا لڑکا بوڈو لینڈ ٹیریٹوریل کونسل کے اقلیتی طلبہ کے حقوق کے تحفظ کیلئے سرگرم جدوجہد کیا کرتا تھا لیکن جن لوگوں کو اس علاقہ کے اقلیتوں کی ترقی پسند نہیں تھی انہوں نے اسے نشانہ بنایا اور اس پر منظم سازش کے تحت 12گولیاں چلائی گئیں جس کے سبب ا سکی موت واقع ہوئی ہے۔یکم اگسٹ کو سہ پہر 4:30بجے دن انہیں قتل کیا گیاجس وقت وزیر اعظم نریندر مودی آسام میں موجود تھے اور چیف منسٹر ان کے ہمراہ تھے۔

عباس الدین احمد نے بتایا کہ ان کے فرزند کی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں تھی لیکن زعفرانی تنظیموں سے وابستہ افراد ان کے فرزند کی سرگرمیوں سے ناراض نظر آرہے تھے کیونکہ ان کی سرگرمیوں کے سبب بوڈولینڈ کے تمام طبقات میں ان کی مقبولیت میں کافی اضافہ ہوا جس کے سبب دیگر طلبہ تنظیمیں جو ملک میں منافرت پھیلانے کیلئے کوشاں ہیں انہیں تکلیف ہو رہی تھی۔مقتول رفیق الاسلام احمد کے بھائی سید الاسلام نے بتایا کہ رفیق کو بوڈو ‘ نیپالی اور آدی واسیوں کی تائید حاصل تھی جس کا ثبوت ان کے جنازہ میں 50ہزار سے زائد عوام کی شرکت ہے لیکن اس کے باوجود بھی پولیس کی جانب سے اب تک تحقیقات میں کوئی پہل نہیں کی گئی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی موجودگی میں ایس آئی ٹی کا اعلان کردیا گیا تھا اور اب تحقیقات کو نظرانداز کیا جانے لگا ہے۔ ضلع گول بارہ میں جہاں 30جون کو نکالی گئی پر امن ریالی پر پولیس لاٹھی اور فائرنگ میں فوت ہونے والے یعقوب علی کے والد شمس الحق نے بتایا کہ ان کے فرزند جے سی بی کے ڈرائیور تھے اور ہندستان میں رہنے والے شہریوں کو بنگلہ دیشی قرار دینے کی کوشش کے خلاف کی جارہی جدوجہد کے دوران پولیس نے ان کے فرزند کو گولی مار دی گئی اور اب تک ان عہدیداروں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی بلکہ مہلوک کے ورثاء کو 5لاکھ روپئے ایکس گریشیاء دیتے ہوئے معاملہ کو نظرانداز کیا جانا لگا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ آسام میں رہنے والے بنگلہ زبان کا استعمال کرنے والے شہریوں کو ہراساں کیا جا رہاہے اور انہیں بنگلہ دیشی قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوںن ے بتایا کہ ریاست آسام میں یہ سلسلہ 1972سے جاری ہے اور کئی واقعات میں والدین کو ہندستانی مانا جاتا ہے اور ان کی نسل کو ہندستانی ماننے سے انکار کیا جارہا ہے۔مسٹر ہرش مندر نے کہا کہ ماحول کو تبدیل کرنے کے لئے عوام میں شعور بیدار کیا جانا ناگزیر ہے کیونکہ اس طرح کے حالات میں عوام کو ہی اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوںنے ملک میں درندگی کے خاتمہ کیلئے کاروان محبت کے مقصد کو بتاتے ہوئے کہا کہ ہندستانی جمہوریت کی بقا ء کیلئے ملک کے عوام میں پھیلائی جانے والی نفرت اور خوف کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر رام پنیانی نے بتایا کہ ہندستان کو فی الحال کسی سے نہیں بلکہ آر ایس ایس کی پالیسیوں سے سنگین خطرہ لاحق ہے اور ان خطرات سے نمٹنے کیلئے ملک کے سیکولر عوام میں اتحاد کو پیدا کرتے ہوئے ملک کو بچانا ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔مسٹر جان دیال نے کہا کہ ریاست آسام میں حکمرانی تبدیل ہنے کے بعد کے حالات سے عوام میں مایوسی پیدا ہورہی ہے لیکن اس مایوسی کو دور کرنے کے لئے نوجوان نسل آگے آرہی ہے جو کہ منافرت پھیلانے والی سونچ کے خاتمہ میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔