95 سال کی عمر میں بھی 200 روپئے وظیفہ،عہدیداروں کا بزرگوں سے ظالمانہ مذاق

حیدرآباد ۔ 10 ۔ ستمبر : ( نمائندہ خصوصی ) : غربت اور ضعیفی انسان کو کس قدر مجبور کردیتی ہے کہ وہ زندہ رہنے کے لیے مہنگائی کے اس دور میں صرف 200 روپئے کی خاطر گھنٹوں قطار میں ٹھہر کر اپنی باری کا انتظار کرتا ہے اور جب کاونٹر پر اس کی باری آتی ہے اور کلرک یہ کہتا ہے کہ آپ کا کارڈ بوگس ہے یا آج نہیں کل آؤ ۔ تو ضعیف و ناتواں شخص کا دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے ۔ یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ ریاستی حکومت سے معذورین اور معمرین کے لیے 200 روپئے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا گیا تھا تاہم یہ وظائف ان مجبور و بے کس افراد کے گھر پر روانہ نہیں کئے جاتے بلکہ انہیں متعلقہ دفتروں پر جاکر رقم حاصل کرنی پڑتی ہے ۔ آج ہماری ملاقات ایسے ہی ایک انتہائی ضعیف خاتون سے ہوئی جن کی عمر 95 سال ہوچکی ہے ۔ ان کے ضعف و نقاہت کا یہ عالم ہے وہ ٹھیک سے چل بھی نہیں پائی ۔ ضعیفی کی وجہ سے سانس پھولنے لگتی ہے ۔ ڈھنگ سے بات چیت کرنے کے موقف میں بھی نہیں ۔ مگر مصطفی نگر میں رہنے والی 95 سالہ مریم بی دھیرے دھیرے پیدل چل کر 4 کلومیٹر کا فاصلہ طئے کرتے ہوئے چندو لال بارہ دری پنشن آفس جارہی ہے ۔ اس امید میں کہ انہیں آج 200 روپئے مل جائیں گے ۔ مگر انہیں اس بات کا بھی خدشہ لگا ہوا ہے کہ مذکورہ کلرک انہیں ’ آج نہیں کل آؤ ‘ نہ کہہ دیں ۔ اسی پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ کس قدر افسوس ناک پہلو ہے ۔ آج کے مہنگائی کے اس دور میں جب ایک پیالی چائے کی قیمت دس روپئے ہوچکی ہے ایسے میں یہ لوگ اپنے وظیفے کی رقم سے 30 پیالی چائے بھی نہیں خرید سکیں گے ۔ دراصل وائی ایس آر کانگریس کی حکومت نے معمرین اور معذورین کے لیے یہ اسکیم شروع کی تھی مگر آج 10 سال گذر جانے کے بعد بھی وہی 200 روپئے دئیے جارہے ہیں ۔ حالانکہ علحدہ تلنگانہ قائم ہونے کے بعد نئے چیف منسٹر کے سی آر نے اس وظیفے کو 1000 روپئے ماہانہ کرنے کا اعلان کیا تھا جس سے معمرین اور

معذورین میں خوشیوں کی لہر دوڑ گئی تھی اور یہ لوگ یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ کے سی آر کی حکومت بہت جلد اپنے اعلان کو عملی جامہ پہنائے گی ۔ بہرحال مریم بی نے ہمیں بتایا کہ غربت اور مفلسی کی وجہ سے وہ یہ 200 روپئے حاصل کرنا بھی نہیں چھوڑ سکتی ۔ اس لیے وہ کسی طرح پیدل چل کر ہر ماہ ایک سے 5 ، 6 تاریخ تک متعلقہ دفتر کا چکر لگاتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ آٹو یا کوئی اور سواری کے ذریعہ آنا چاہیں تو 50 روپئے کرایہ میں ہی خرچ ہوجائے گا ۔ اس لیے وہ پیدل چلنے پر مجبور ہیں ۔ قارئین مریم بی اس قدر ضعیف ہے کہ وہ ٹھیک سے بات کرسکتی ہے اور نہ اپنا اڈریس بتا سکتی ہے جب کہ ان کے کارڈ پر کوئی پرانا اڈریس تحریر ہے ۔ حتی کہ ان کے پاس فون نمبر بھی نہیں ۔ اس معاملے کا تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ یہ رقم حکومت کی جانب سے بطور امداد دی جاتی ہے لیکن ان غریبوں کو رقم دینے والے سرکاری عہدیداران ان کے ساتھ بے رحمانہ سلوک اختیار کرتے ہیں ۔ ان ضرورت مندوں سے اس لہجے میں بات کی جاتی ہے جیسے وہ اپنی جیب سے رقم دے رہے ہوں ۔ رقم حاصل کرنے والے کی اکثریت پڑھی لکھی نہیں ہوتی اور ان کی رہنمائی کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا ۔ نتیجتاً 200 روپئے کی رقم حاصل کرنے والی معمر خواتین و حضرات کو 200 جھڑکیاں سننی پڑتی ہیں ۔ ان کے لیے کوئی سہولت بھی نہیں ہوتی ۔ صبح سے شام تک گھنٹوں قطار میں ٹھہری خواتین کے لیے پینے کا پانی تک نہیں ہوتا ہے ۔ حکومت کا وہ کام جو عوامی فلاح و بہبود کے لیے کیا جاتا ہے ۔ اگر اخلاص سے خالی ہو تو اس کا سیاسی فائدہ بھی نہیں ہوتا ۔ بہر حال تلنگانہ کی نئی حکومت کو چاہئے کہ اپنے اعلان کے مطابق جلد سے جلد اس رقم کو 200 سے بڑھاکر 1000 روپئے کردے اور ایسا نظام بنائے کہ ہر محلہ میں اس کا سنٹر بنایا جائے تاکہ معمرین کو اس رقم کے لیے طویل فاصلہ طئے نہ کرنا پڑے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ان معمرین اور معذورین کی دعائیں کے سی آر حکومت کی طوالت کا سبب بن جائیں گی ۔۔