لکھنؤ۔/23مئی، ( سیاست ڈاٹ کام ) جسٹس امتیاز مرتضیٰ اور جسٹس اشوک پال پر مشتمل الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے ایڈوکیٹ سریش کمار گپتا کی جانب سے آفتاب خان ولد آفاق خان کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک درخواست داخل کی تھی جس میں ان کی رہائی کی گذارش کی تھی،نے یو پی حکومت کو ایک نوٹس روانہ کی ہے جس میں استفسار کیا گیا ہے کہ 92سالہ آفاق خان ہنوز جیل میں کیوں ہیں ؟ بنچ نے حکومت کو اس بات کا پابند کیا ہے کہ وہ اپنا جواب اندرون ایک ماہ داخل کرے۔ ریاستی حکومت کو جاری کی گئی نوٹس میں واضح طور پر کہا گیا تھا
کہ1996ء کے ایک ضابطہ کے مطابق آفاق خان کو رہا کردینا چاہیئے تھا ، اور یہ بات حیرت انگیز ہے کہ وہ اب تک جیل میں کیوں ہیں؟ آفتاب خان کی داخل کردہ درخواست میں واضح طور پر تحریر کیا گیا تھا کہ آفاق خان 1976ء سے لکھیم پور کھیری میں ہوئے ایک قتل کی پاداش میں جیل میں ہیں۔13مئی 1982ء کو لکھیم پور ڈسٹرکٹ سیشن کورٹ نے آفاق خان کو دیگر تین ملزمین کے ساتھ سزائے قید سنائی تھی۔ ہائی کورٹ میں آفاق خان کی سزاء کے خلاف اپیل دائر کی گئی تھی جسے مسترد کردیا گیا تھا اور اس کے بعد سے اب تک چاروں ملزمین جیل میں ہیں۔ 1996ء میں یو پی حکومت نے ایک حکمنامہ جاری کیا جس کے تحت تین ملزمین کی رہائی عمل میں آئی تھی۔ لیکن آفاق خان کو رہا نہیں کیا گیا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ پروہبیشن آفیسر نے ایک رپورٹ داخل کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ آفاق خان دنیا میں بالکل اکیلا ہے، اس کا کوئی رشتہ دار نہیں ہے۔
اس کی جائیداد اور اراضیات سب تاراج ہوچکی ہیں اور اگر اسے رہا کیا گیا تو اس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے، لہذا اس بنیاد پر آفاق خان کو جیل سے رہا نہیں کیا جاسکتا۔ جس کے بعد حکومت نے انہیں اترا کھنڈ کی ماڈل جیل بھیج دیا۔ رپور ٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ جس وقت قتل کا واقعہ رونما ہوا تھا اسوقت آفاق کا بیٹا آفتاب 4تا5سال کی عمر کا رہا ہوگا لہذا آفاق کا کوئی رشتہ دار آفتاب کو اپنے ساتھ پنجاب لے گیا جہاں اس نے ہوش سنبھالنے کے بعد مزدوری شروع کردی۔ جب وہ باشعور ہوگیا تو اسے پتہ چلا کہ اس کے والد جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں جس کے بعد آفتاب نے یو پی حکومت کو درخواست تحریر کی جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ لہذا اَب آفاق کی رہائی کی امیدیں پیدا ہوگئی ہیں۔ بنچ نے آفاق کے وکیل سریش گپتا کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ آفاق کی رہائی کیلئے ریاستی حکومت سے رجوع ہوں۔