دوست دشمن کا پتہ کیسے چلے گا ہم کو
سب کی پیشانی پہ آثار کہاں ہوتے ہیں
مویشیوں کی فروخت پر پابندی ختم!م
مسالخ گاہوں کو جانوروں کی مارکٹ سے مویشیوں کی خرید و فروخت پر عائد کردہ اپنے متنازعہ امتناع کو نریندر مودی حکومت نے چند ماہ کے اندر ہی واپس لینے کا فیصلہ کیا ۔ اس سے ڈیری فارم مالکین ، چمڑے کی تجارت کرنے والوں اور گوشت کی برآمدات میں مصروف افراد کے لیے زبردست فائدہ ہوگا ۔ 23 مئی کو وزارت ماحولیات نے جانوروں پر ظلم و زیادتی کے انسداد قانون کو تبدیل کرتے ہوئے نئے قواعد لائے تھے ۔ اس طرح مودی حکومت نے ایک تنازعہ کھڑا کر کے ملک بھر میں جانوروں کی فروخت اور ذبیحہ کو ممنوع قرار دیا تھا اس سے ملک کی مویشیوں کی مارکٹ اور اس مارکٹ سے وابستہ لاکھوں افراد بے روزگار ہوئے تھے ۔ اترپردیش کے حالیہ بلدی انتخابات میں بی جے پی نے اگرچیکہ 14 بلدیات کے منجملہ 12 پر قبضہ کیا ہے مگر اس کے ووٹ تناسب میں شدید کمی نے پارٹی کی آنکھیں کھول دی ہیں ۔ عوامی ناراضگی کو محسوس کرلیا ہے ۔ گجرات اسمبلی انتخابات کے پیش نظر اگر مودی حکومت نے جانوروں کی خرید و فروخت پر پابندی والے متنازعہ قانون کو واپس لینے پر غور کیا ہے تو یہ اپنی سیاسی بقاء کی ایک اور کوشش ہے کیوں کہ اب تک اس حکومت نے جو بھی متنازعہ فیصلے کیے ہیں انہیں بتدریج واپس لے رہی ہے یا ان میں ترمیمات کر کے عوام کو راحت پہونچانے کا دعویٰ کررہی ہے ۔ یہ ایک ایسی سیاسی چال ہے جس کی مشق کے ذریعہ عوام الناس کو زیادتیوں کا شکار بنایا جاتا ہے بعد ازاں ان پر رحم کرنے کا ادعا کیا جاتا ہے ۔ جب مودی حکومت کو مویشیوں کی خرید و فروخت پر پابندی کے قانون پر شدید تنقیدی کا سامنا کرنا پڑا اور کئی گوشوں سے خاص کر کیرالا ، مغربی بنگال اور میگھالیہ سے اس امتناعی اعلامیہ کے خلاف اعتراضات شروع ہوئے تو حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوا لیکن جب ووٹ فیصد میں کمی کا رجحان سامنے آنے لگا تو مودی حکومت نے اپنے متنازعہ قانون کی خرابیوں اور اس سے پیدا ہونے والے سیاسی نقصانات کے علاوہ اس تجارت سے وابستہ اپنے ہی پارٹی قائدین کو لاحق خسارہ کو روکنے کے لیے قانون واپس لینے پر غور کیا ۔ بیف پر پابندی کے بعد بطور احتجاج کئی گوشوں نے بیف فیسٹیول بھی منایا جس میں بیف کی بریانی اور مختلف کھانے بناکر سڑکوں پر مظاہرے کیے گئے ۔ میزورم ، کیرالا کے سیاستدانوں نے موودی حکومت کے فیصلہ کو ہندوستان کے سیکولر ڈھانچہ کو تباہ کرنے کی کوشش قرار دیا تھا ۔ مویشیوں پر پابندی کے بعد جانوروں کی مارکٹ ٹھپ ہوگئی ۔ غریب کسانوں کو اپنے جانوروں کی دیکھ بھال پر آنے والے مصارف کا بوجھ برداشت کرنا پڑا تو ان جانوروں کو کھلا چھوڑ دیا گیا ۔ جانوروں کے کھلے ہوجانے کے باعث کھڑی فصلیں تباہ ہونے لگیں ۔ گاؤ شالاؤں میں جانوروں کی دیکھ بھال ایک مشکل طلب کام بن گیا ۔ حکومت کے اس متنازعہ قانون کے باعث سب سے زیادہ مسلمان متاثر ہوئے ہیں خاص کر جانوروں کی تجارت اور ڈیری فارم سے وابستہ مسلم تاجروں کو گاؤ رکھشکوں سے شدید خطرہ پیدا ہوگیا ۔ گاؤ رکھشکس نے کئی مسلمانوں کو اسی وجہ نشانہ بنایا تھا کہ یہ لوگ مویشیوں کو خرید کر انہیں ذبیحہ کے لیے لے جارہے ہیں ۔ بیف کا گوشت کھانے ، رکھنے اور جانوروں کی قربانی اور ذبیحہ کو روکنے کے لیے نام نہاد گاؤ رکھشکوں نے ملک بھر میں حملوں کا آغاز کیا جس میں مختلف مقامات پر کئی مسلم افراد ہلاک ہوئے ہیں ۔ حکومت کو ان مسلم افراد کی ہلاکتوں کی فکر نہیں تھی ۔ جب اس کے متنازعہ قانون کی وجہ سے خود پارٹی سے وابستہ جانوروں کی مارکٹ کے تاجروں کو کروڑہا روپئے کا نقصان ہونے لگا تو اس امتناع کو واپس لینے کے لیے مجبور ہونا پڑا اور حکومت کے اس متنازعہ اقدام کو غیر دستور بھی قرار دیا جاچکا تھا کیوں کہ اس قانون کو دستور کے کسی بھی بنیاد پر تیار نہیں کیا گیا تھا کیوں کہ قانون نے راست شہری زندگی کے حق کو چھین لیا تھا ۔ تشدد کے کئی واقعات میں مسلمانوں کی زندگیاں تباہ کردی گئی تھیں ان میں الور کے پہلو خاں ، دہلی متھرا ٹرین میں جنید خاں کی موت بھی راست یا بالواسطہ طور پر مویشیوں کی منتقلی یا گوشت کھانے کے افواہ کا نتیجہ تھی ۔ ایسے میں ملک کے وزیراعظم کی حیثیت سے مودی کو ایک انصاف پسند حکمراں ہونے کا ثبوت دینا تھا مگر افسوس اس بات کا ہے کہ انہوں نے گاؤ رکھشکوں کی زیادتیوں کو دو حصوں میں تقسیم کر کے کہا کہ اچھے گاؤ رکھشک اور خراب گاؤ رکھشک ہوتے ہیں اس طرح انہوں نے مویشیوں کی تجارت کو بھی اقلیتوں سے چھین کر ہندوتوا حامی تاجروں کی تجارت کو مستحکم بنانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے ۔ وزیراعظم کے اختیار کردہ موقف کی وجہ سے ہی گاؤ رکھشکوں کے حملوں میں 75 فیصد اضافہ ہوا تھا ۔ اب اس امتناعی قانون کو واپس لینے سے ظاہر ہوتاہے کہ مودی حکومت کے کام پر انگلیاں اُٹھ رہی ہیں ۔۔