زیادہ سے زیادہ روزگار پیدا کرنے پر زور، تنخواہوں میں اضافہ اور قیمتوں میں استحکام لانے کا مشورہ، معاشی سروے رپورٹ
نئی دہلی ۔ 26 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) عام بجٹ کی پیشکشی سے 3 دن قبل آج پیش کردہ معاشی سروے میں ملک کی معاشی ترقی کا نشانہ 7-7.5 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ آئندہ مالیاتی سال کے دوران معاشی ترقی مذکورہ فیصد کے مطابق ہونے کی توقع ہے۔ سروے رپورٹ میں زیادہ سے زیادہ اصلاحات لانے، سبسیڈی کی کٹوتی اور مالیاتی سطح پر اعتدال پسندانہ اقدامات کی سفارش کی گئی ہے۔ گذشتہ سال معاشی سروے رپورٹ میں ملک کے مالیاتی سال برائے 2015-16ء کیلئے معاشی ترقی کی شرح 8-8.5 فیصد مقرر کی گئی تھی لیکن اس نشانہ تک پہنچنے میں ناکامی ہوئی ہے۔ پارلیمنٹ میں وزیرفینانس ارون جیٹلی کی جانب سے پیش کردہ معاشی سروے رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہیکہ آئندہ سال کیلئے خسارہ بجٹ اندرون ملک پیداوار کا 3.5 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ سروے میں یہ بھی زور دیا گیا ہیکہ گڈس اینڈ سرویسیس ٹیکس (GST) کو تیزی سے روبہ عمل لایا جائے۔ اس کیلئے سروے رپورٹ میں غیرمعمولی اصلاحات لانے کی سفارش کی گئی ہے۔ سروے میں مزید کہا گیا ہیکہ ملک کو معاشی محاذ پر ترقی کرنے کیلئے اندرون ملک پیداوار کا 8.10 فیصد نشانہ پورا کرلینا ہوگا۔ آئندہ دو سال کے دوران اگر سخت محنت کی جائے تو پیداوار کی شرح بہتر ہوگی۔
ہندوستان کے اہم ماہرین معاشیات نے معاشی سروے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ سروے کے مطابق آئندہ مالیاتی سال حکومت کیلئے چیلنجس سے بھرپور ہوگا ساتھ میں پے کمیشن ایوارڈ پر عمل آوری کیلئے حکومت کو زائد سے زائد وسائل مختص کرنے ہوں گے۔ تاہم سروے رپورٹ مںی سال 2016-17ئکیلئے افراط زر کی شرح 4.5-5 مقرر کی گئی ہے اور یہ شرح ریزرو بینک آف انڈیا کے مقررہ نشانہ کے تحت ہی ہے جبکہ موجودہ خسارہ جی ڈی پی کے تحت 1-1.5 فیصد ہی رہے گا۔ افراط زر اور مہنگائی کے بارے میں بتایا تھا کہ یہ افراط زر کی شرح کم ہوگی اور مہنگائی یا قیمتوں پر قابو پا لیا جائے گا۔ روپے کی قدر کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔ ماقبل بجٹ معاشی دستاویز میں ٹیکس کے جال کو 5.5 سے بڑھا کر 20 فیصد کرنے کی سازش کی گئی ہے۔ اس کے عوامی حکومت کو غیر مالیاتی کمپنیوں کو فروخت کردینا چاہئے تاکہ سرکاری سطح پر چلائے جانے والے بینکوں میں مالیہ کو مستحکم بنایا جاسکے۔ ہندوستان کو اس وقت لیبر مارکٹ میں بڑے چیلنجس کا سامنا ہے۔ اس لئے اچھے روزگار کی تعداد کو بڑھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ملازمتوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے علاوہ تنخواہیں بھی اچھی دی جائیں۔ ہندوستانی معیشت کو ’’اچھے‘‘ اور محفوظ روزگار پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو لوگ ورک فورس کا حصہ بن رہے ہیں انہیں روزگار کی ضمانت دینے سے پیداواری میں بہتری آئے گی اور انہیں اچھی تنخواہیں ادا کرنے سے کام میں عمدگی پیدا ہوگی۔ اسی طرح سال 1989 میں 10.5 ملین روزگار کے مواقع پیدا کئے گئے تھے اور سال 2010 میں صرف 3.7 ملین روزگار کی شرح مقرر کی گئی تھی جبکہ زرعی شعبہ میں 35 فیصد اضافہ کا نشانہ مقرر کیا گیا تھا۔ سروے میں بتایا گیا ہیکہ کنٹراکٹ لیبر کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے خانگی شعبوں میں کنٹراکٹ لیبرس کی تعداد 12 فیصد سے بڑھ کر 25 فیصد ہوگئی ہے۔ تنخواہوں میں اضافہ کے باوجود مہنگائی اور قیمتوں میں استحکام کی توقع نہیں ہے۔ اس کا افراط زر پر بہت ہی کم اثر پڑے گا۔ عالمی سطح پر معیشت کی ابھرتی خوشنما تصویر کے درمیان ہندوستان کی معیشت کے تعلق سے کئی امیدیں پیدا کی گئی ہیں۔ ہندوستان کی معاشی ترقی اس وقت ساری دنیا میں سب سے اعلیٰ سطح پر پائی جاتی ہے اس کی اصل وجہ حکومت نے عوامی انفراسٹرکچر کی ضروریات کی تکمیل کی جانب تیزی سے قدم اٹھائے ہیں۔
معاشی سروے کی خصوصی جھلکیاں
نئی دہلی ۔ 26 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) پارلیمنٹ میں پیش کردہ معاشی سروے رپورٹ برائے 2015-16ء کی خصوصی جھلکیاں اس طرح ہیں:
٭ آئندہ مالیاتی سال کے دوران جی ڈی پی پیدوارا کی شرح 7-7.75 فیصد کے درمیان ہوگی۔
٭ اس مالیاتی سال پیداوار کی شرح طویل مدتی نقطہ نظر سے 7.6 فیصد ہوگی اور اس میں 8-10 فیصد تک برآمدات کی شرح میں اضافہ ہوگا۔
٭ خام تیل کی قیمتیں آئندہ مالیاتی سال فی بیارل 35 امریکی ڈالر ہونے کی توقع ہے۔ اس سال یہ قیمت فی بیارل 45 امریکی ڈالر ہے۔
٭ ریٹیل افراط زر کی شرح سال 2016-17ء کیلئے 4.5-5 فیصد مقرر کی گئی ہے۔
٭ افراط زر میں کمی سے قیمتوں میں استحکام آئے گا۔٭ پے کمیشن کی سفارشات پر عمل آوری سے قیمتوں میں عدم استحکام پیدا نہیں ہوگا۔
٭ مجوزہ ٹیکس کی حد کو 5.5 فیصد سے بڑھا کر انفرادی آمدنی رکھنے والوں کیلئے زائد از 20 فیصد کردینے کی سفارش کی گئی ہے۔
٭ اس سال مالیاتی خسارہ کا نشانہ 3.9 فیصد مقرر کیا گیا ہے اور آنے والے سالوں میں یہ چیلنجس سے بھرپور ہوگا۔
٭ آئندہ مالیاتی سال سبسیڈی ایل جی ڈی پی سے 2 فیصد کم ہوگا۔٭ جی ایس ٹی بل کی منظوری میں تاخیر پر اظہارتشویش
٭ صحت، تعلیم کے شعبوں میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت، زرعی شعبہ پر خصوصی توجہ اور اصلاحات لانے کا مشورہ
٭ انسداد رشوت ستانی قانون کو مضبوط بنانے کا مشورہ٭ زیادہ سے زیادہ روزگار پیدا کرنے کیلئے ریگولیٹری رکاوٹیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔