حج کے اس مبارک سفر میں حضرت سیدنامحمد رسول اللہا کے روضۂ اطہر ،شہر مدینۂ پاک اور اس کے مبارک ومقدس مقامات کی زیارت کا شرف بھی نصیب ہوتا ہے، ظاہر ہے ایک ایمان والے کیلئے ان مبارک مقامات کی زیارت کا حصول دلی تمنائوں وآرزئوں کے خواب کی تعبیراور ایک بندۂ مومن کی زندگی کاحاصل ہے ، چونکہ ہمارے ایمان کا سرچشمہ اور دین کا منبع ذات رسالت مآب سید الکائنات سیدنا محمد رسول اللہ اہیں، آپ ا کی ذات اقدس ایمان کی روح اور جان ہے کہ جس کے بغیرحلاوت ایمانی، فیضان روحانی ممکن نہیں ،اللہ سبحانہ نے آپ اکی ذات پاک سے دلی عقیدت ومحبت وعملی تعلق ونسبت ہی میں روحانی راحت وقلبی سکینت کا سامان رکھا ہے ۔ آپ ا کا شہر پاک ایمان کے نور وروشنی کا عظیم مینار ،نور اسلام کا گہوارہ، ہدایت ربانی واحکام اسلامی کا روحانی محور ونزول وحی الہی کامرکز ہے ۔مدینہ پاک کے سفر میں حضرت نبی پاک ا کے مواجہ پاک میں حاضری کی سعادت نصیب ہوتی ہے ۔مواجہ شریف میں حاضری کے وقت نگاہیں نیچی کئے ہوئے پورے ادب واحترام، عظمت وعقیدت کے ساتھ صلوۃ وسلام کا نذرانہ متوسط آواز سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کریں ۔ظاہری سکون ووقار،پاکیزگئی تصور وخیال ،دلی الفت ومحبت،ادب واحترام ، عظمت وتعظیم ،توقیر وتقدیس ،رفتار وگفتار ،نشست وبرخواست میں کامل حزم واحتیاط زیارت پاک کے لوازمات قبولیت ہیں۔
یہ ہے باب مصطفے لازم ہے اے دل احتیاط ہر تڑپ میں بھی تجھے کرنی ہے شامل احتیاط
سورۂ حجرات کی ابتدائی آیات میں حضرت نبی پاک ا کی بارگاہ میں حاضری کے آداب بیان فرمائے گئے ہیں۔اے ایمان والو! تم اپنی آواز کو نبی (ا)کی آواز پر بلند مت کرواور آواز میں اس قدر جہر اور بلندی سے کام نہ لو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہوکہ اس طرح کرنے پر تمہارے اعمال بے کار ہوجائیں گے اور اس کا تم کو شعور وادراک نہیںہوگا۔(حجرات/۲)یہ آیت پاک آج بھی مواجہ شریف میں جلی حروف میں لکھی ہوئی ہے۔ اس آیت پاک میں حضرت نبی پاک ا کی بارگاہ اقد س میں حاضری کے آداب تعلیم فرمائے گئے ہیں ۔اس سے پہلے کی آیت میں بھی ’’یایہا الذین اٰمنوا‘‘سے خطاب فرمایا گیاہے ، اس دوسری آیت میں بظاہر اس خطاب کی ضرورت نہیں تھی لیکن اس بارگاہ عالی وقار کی عظمت واہمیت کی وجہ دوبارہ اہل ایمان کو اس لفظ سے خطاب فرمایا گیا ،اور ان کومتنبہ کیا گیا کہ یہ کوئی معمولی اور غیر اہم بات نہیں ہے بلکہ اس پر ایک بندۂ مومن کے سارے اعمال خیر ، طاعات وحسنات کی قبولیت وعدم قبولیت کا دار ومدار ہے ۔
جب یہ آیت پاک نازل ہوئی تو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تادم زیست آہستگی وسرگوشی سے گفتگو کرنے کی قسم کھالی ۔ حضرت سیدنا فاروق آعظم رضی اللہ عنہ اس قدر آہستہ گفتگو کرنے لگے کہ بسا اوقات ان سے یہ دریافت کرنا پڑتا کہ آپ نے کیا بات کہی ہے ۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد حبط اعمال کے خوف سے گھر بیٹھ گئے، کئی دن تک نبی پاک ا کی بارگاہ اقدس میں ان کی حاضری نہیں ہوئی تو حضرت نبی پاک انے ان کو یاد فرمایا بارگاہ اقدس میں جب حاضر ہوئے تو عرض کیا۔ اے اللہ کے نبی (ا)مجھے ڈر ہے کہ میں کہیں ہلاک نہ ہوجائوں چونکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے بلند آواز سے گفتگو کرنے کو منع فرمایا ہے جب کہ میری آواز بلند ہے ۔حضرت نبی پاک انے فطری طور پر ان کی آواز بلند ہونے کی بناء ان کو خصوصی رعایت عطا فرمائی اور یہ خوشخبری سنائی۔(شرح الشفاء لملا علی قاری، الجزء الثالث)۔کیا اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تم قابل تعریف زندگی گزارو ، نعمت شہادت پائو اور جنت میں داخل کئے جائو۔ عرض کیا یقینا میںحق سبحانہ وتعالی کے اس بے پایاں انعام وعطا پر راضی ہوں ۔ چنانچہ شارحین حدیث بیان فرماتے ہیں ۔ آپ کو یمامہ کی جنگ میں نعمت شہادت نصیب ہوئی ۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو پہلے ہی سے سر تا پا ادب واحترام کا پیکر تھے اس آیت پاک کی نورانی ہدایت کانوں کی راہ سے جب دل میں اتر گئی تو وہ اور زیادہ محتاط ہوگئے ، ہم افراد امت پر بھی لازم ہے کہ حضرات صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کامل احتیاط وادب ملحوظ رکھیں۔
محقق علمائے کرام بیان فرماتے ہیں، حضرت نبی پاک ا کا ادب اور آپ کی تعظیم کا جو حکم اس دنیا میں آپ ا کی حیات مبارکہ کے زمانے میں تھا وہی حکم آپ کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی ہے۔ چنانچہ حضرت سیدنا عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں دو بدوی مسجد شریف میں بلند آوازسے گفتگو کررہے تھے ،حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے جب یہ دیکھا تو آواز دیکر بلانے کے بجائے ان کو متوجہ کرنے کیلئے حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کی طرف کنکری پھینکی،کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس جگہ آواز کی بلندی اعمال کو ضائع کرسکتی ہے ۔ جب وہ متوجہ ہوگئے توان سے فرمایا، جائو ان دونوں کو میرے پاس لے آئو جب وہ انہیں لے آئے تو فرمایا تم کون لو گ ہو یا یہ فرمایا کہ تم کہاں کے ہو؟ ( اس سوال سے مقصود یہ دریافت کرنا تھا کہ کیاتمہیں حضرت نبی پاک ا کی بارگاہ اقدس کے آداب کا علم نہیں؟ ) انہوں نے جواب میں کہا کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں(گویا انہوں نے عذر کیا اور اپنے عدم علم کو تسلیم کیا)اس پرآپ نے فرمایااگر تم مدینہ پاک میں رہنے والے ہوتے اور اس طرح کا عمل کرتے تو میں تمہیں ضرور سزادیتا، کیونکہ تم حضرت نبی پاک اکی مسجد میں آواز بلندکر رہے ہو(بخاری، کتاب الصلوۃ،باب رفع الصوت فی المسجد،ص۶۷)۔ حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے آداب نبوت سے ان کی ناآشنائی کی بناء چشم پوشی ودرگزر کا معاملہ فرمایا ۔اس واقعہ سے واضح ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضرت نبی پاک ا کا ادب واحترام اور آپ اکی تعظیم وتکریم دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی اسی طرح ضروری خیال فرماتے جس طرح آپ ا کے اس دنیا میں رونق افروزی کہ وقت ضروری سمجھتے تھے ۔اس لئے زائرین مدینہ شریف کو اس کا خوب اہتمام کرنا چاہئے اور کامل آداب کی رعایت رکھتے ہوئے مدینہ پاک کے قیام کو غنیمت جاننا چاہئے ۔
لے سانس بھی آہستہ کہ دربارنبی ہے پلکو ں کا جھپکنا بھی یہاںبے ادبی ہے