حقانی گروپ لیڈر کے حوالے سے افغان طالبان کا بیان

جلال الدین حقانی کے انتقال کی خبروں کی تردید کی کوشش ‘ ملامحمد عمر کے سوگ میں مصروف ہونے کا دعویٰ

کابل۔2اگست ( سیاست ڈاٹ کام )افغان طالبان نے آج ایک تحریری بیان جاری کیا جو مبینہ طور پر بدنام زمانہ  بے رحم حقانی شورش پسند گروپ کے قائد جلال الدین حقانی سے منسوب کیا جارہا ہے ۔ اس بیان کے اجراء کے مقصد اُن کے انتقال کی خبروں کی تردید ہے ۔ بیان طالبان کی ویب سائیٹ پر شائع کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حقانی ملا محمد عمر کے انتقال کا سوگ منارہے ہیں ۔ وہ اس گروپ کے یکچشم قائد تھے‘جن کے انتقال کی گذشتہ ہفتہ انتہا پسندوں نے توثیق کردی ہے ۔ افغان حکومت کا کہنا ہے کہ ملا عمر کا انتقال اپریل 2013ء میں ہوا تھا ۔ طالبان نے اعلان کیا تھا کہ ملا اختر محمد منصور اُن کے نئے قائد ہیں اور اس سلسلہ میں ایک بیان اختر کی جانب سے کل جاری کیا گیا تھا ۔ اس بیان میں جلال الدین حقانی کا کوئی اڈیو شامل نہیں ہے جس سے ثابت ہوسکتا کہ وہ زندہ ہیں ‘ تاہم طالبان کی جانب سے کوشش کی جارہی ہے کہ متحدہ محاذ منصور کی قیادت میں متحد رہے اور اپنی 14سالہ شورش حکومت افغانستان کے خلاف جاری رکھے ۔ ملا عمر کے رشتہ داروں بشمول ان کے فرزند یعقوب نے کہا کہ وہ منصور کی تائید نہیں کرتے ۔

اس سے اشارہ ملتا ہے کہ جو لوگ امن مذاکرات جاری رکھنا چاہتے ہیں اور تحریک کے زیادہ انتہا پسند عناصر کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے ہیں ۔ آج کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ حقانی نے منصوب کی بحیثیت طالبان کے قائد تائید کی ہے ۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ میں خاص طور پر اسلامی امارت کے تمام ارکان سے سفارش کرتا ہوں کہ اپنا داخلی اتحاد اور نظم وضبط برقرار رکھے ۔ آڈیو ٹیپ میں اس بیان کو جلال الدین حقانی سے منسوب کیا گیاہے جو افغانستان کے طالبان کیلئے جاری کیا گیا ہے ۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ حقانی کے حامیوں کو دشمنوں کے پروپگنڈہ سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیئے ۔ جلال الدین حقانی ‘ حقانی نیٹ ورک کے قائد ہیں۔ یہ پاکستان کے غیرقانونیت کے مرکز قبائلی علاقوں میں قائم ایک دہشت گرد نیٹ ورک ہے ۔ سمجھا جاتا ہے کہ اس گروپ نے کئی خونریز حملے افغانستان میں کئے ہے ۔ یہ گروپ ان حملوں کی ذمہ داری بہت کم قبول کرتا ہے ۔ عام طور پر ان کی شناخت ان کے پیچیدہ طریقہ کار کی بناء پر کی جاتی ہے۔

جیسے کثیر تعداد میں حملہ آور بشمول خودکش بم بردار جلال الدین حقانی کے انتقال کی خبریں شائع ہوچکی ہیں جن کی گذشتہ سال سے عسکریت پسند تردید کرتے آئے ہیں ۔ اگر منصور طالبان جنگجوؤں کو ترغیب دینے سے قاصر رہیں اور اپنے کمانڈرس کو عملی کارروائی کیلئے تعینات نہ کرسکے تو اس کا فائدہ سب سے زیادہ دولت اسلامیہ گروپ کو پہنچے گا ۔ حریف اسلامی انتہا پسند گروپ جو پہلے ہی شام اور عراق کے ایک تہائی علاقہ پر قابض ہوچکا ہے ۔ مصر اور لیبیا میں اس کے حلیف موجود ہیں ۔ افغانستان کے ایک چھوٹے سے علاقہ میں اس نے قدم جمالئے ہیں اور سرگرمی سے طالبان جنگجوؤں سے مایوس افراد کو اپنے گروپ میں شامل کررہا ہے ۔ دریں اثناء طالبان کے نمائندے حکومت افغانستان کے عہدیداروں کے ساتھ امن مذاکرات میں شامل رہے ۔ انتہا پسندوں نے مقامی فوج پر اپنے حملوں میں اضافہ کردیا ہے ۔گذشتہ سال ناٹو کی فوجیں اور امریکی فوج اپنی جنگجو مہم سے دستبردار ہوکر افغانستان کا تخلیہ کرچکی ہیں ۔