وہ آئیں یا نہ آئیں محبت کو کیا غرض
کرتے ہیں انتظار بڑی سادگی سے ہم
60 مہینوں کا حساب کہاں ہے
وزیر اعظم نریندر مودی نے 2014 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل بی جے پی لیڈر کی حیثیت سے جب انتخابی مہم چلائی تھی تو انہوں نے ملک کے عوام سے کئی وعدے کئے تھے ۔ انہیںہتھیلی میں جنت دکھائی تھی اوریہ تاثر دیا تھا کہ ان کے پاس علاء الدین کا چراغ ہے اور وہ پلک جھپکتے میں ملک کے تقریبا مسائل کو حل کرنے کا گر رکھتے ہیں۔ انہوں نے عوام سے ایک بار جملہ کہا تھا کہ ملک کے عوام نے کانگریس کو ساٹھ سال دئے ہیں اور انہیں صرف 60 مہینے دئے جائیں۔ ان کا یہ دعوی تھا کہ اس معیاد کی تکمیل کے بعد ان کا کام ہی ان کیلئے ووٹ مانگے گا اور انہیں عوام سے رجوع ہونے کی ضرورت بھی نہیں پڑیگی ۔ تاہم حقیقت میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے ۔ انہیں اپنے اور اپنی پارٹی کیلئے ایک ایک ووٹ مانگنے کیلئے ملک کے چپے چپے کے چکر کاٹنے پڑ رہے ہیں۔ سرکاری ذمہ داریاں اور کام کاج ایک طرف ہوگیا ہے اور وہ روز صبح دہلی سے رخت سفر باندھتے ہیں اور ملک کے کسی حصے میں جا پہونچتے ہیں تاکہ بی جے پی کیلئے اور اپنے لئے ووٹ مانگ سکیں۔ یہ تو خیر ہر سیاسی لیڈر کا کام ہے کہ وہ انتخابات کے وقت اپنی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے ۔ تاہم نریندرمودی کو عوام سے ووٹ مانگنے سے پہلے ملک کے عوام کے سامنے اپنی معیاد یعنی 60 مہینوں کا حساب پیش کرنا چاہئے ۔ انہوں نے خود عوام سے کہا تھا کہ انہیں صرف ساٹھ مہینے دئے جائیں۔ وہ ساٹھ مہینے اب پورے ہورہے ہیں اور انہیں اپنی کارکردگی کی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں بتانا چاہئے کہ ان کے کام کے نتیجہ میں ملک کی صورتحال کیا ہوکر رہ گئی ہے ۔ ایسا کونسا محاذ ہے جس پر کوئی تباہی نہ آئی ہو۔ ایسا کونسا شعبہ ہے جس نے نریندر مودی کے دور حکومت میں ترقی کی ہو ۔ ایسی کونسی ریاست ہے جہاں ان کے دور حکومت میں فرقہ پرستوں نے اپنا سر نہ ابھارا ہو ۔ ایسا کونسا وقت ہے جب فاشسٹ طاقتوں نے نے ناپاک عزائم کو پورا کرنے کی کوشش نہ کی ۔ ملک میںایسی کونسی اقلیتیں ہیں جو خود کو غیر محفوظ تصور نہیں کر رہی ہوں۔ مودی کو ان سارے سوالوں کے جواب عوام کو دینے کی ضرورت ہے ۔
انہیں یہ بھی بتانا چاہئے کہ ان کے اس وعدہ کا کیا ہوا کہ ہر سال دو کروڑ نوجوانوںکو روزگار دئے جائیںگے ۔ انہیںیہ بھی بتانا ہوگا کہ ان کے مشورہ پر کتنے تعلیم یافتہ نوجوانوں نے پکوڑے تلنے کا کاروبار شروع کیا ہو۔ انہیںیہ بھی بتانا ہوگا کہ چیف منسٹر تریپورہ کے مشورہ پر کتنے نوجوانوں نے پان کی دوکان کھولی ہے یا کتنے خاندانوں نے گائے پالنا شروع کردیا ہو۔ انہیں یہ بھی واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک سے کتنے دھوکہ بازوں نے کتنے ہزار کروڑ روپئے کا غبن کرکے بیرونی ملکوں میں پناہ حاصل کی ہو۔ نریندر مودی کو ملک کے عوام کے سامنے یہ بھی جواب دینے کی ضرورت ہے کہ ان کی معیاد کے دوران ملک میں ہجومی تشدد کے کتنے واقعات پیش آئے اور ان میں کتنے قاتلوں کو سزائیں دی گئی ہیں۔ مودی کو یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ خواتین کے خلاف جرائم میں کتنا اضافہ ہوا ہے اور ایسے جرائم میں بی جے پی کے کتنے قائدین ملوث پائے گئے ہیں۔ مودی حکومت کو یہ بھی واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کی حکومت میں ملک کی سرحدات پر کتنے حملے ہوئے ہیں اور حکومت نے ان کے سدباب کیلئے کیا کچھ کیا ہے ۔ انہیں یہ بھی واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ نوٹ بندی کے مسائل کی وجہ سے کتنے لوگوں کی جانیں تلف ہوئی ہیں۔ انہیں یہ بھی واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اب تک پانچ سال کی معیاد میںکتنا کالا دھن واپس لایا گیا ہے ۔
جتنے بھی وعدے نریندرمودی نے کئے تھے ان تمام وعدوں کی قلعی اب کھل گئی ہے ۔ خود بی جے پی قائدین کو اچھے دن کا نعرہ یاد نہیں رہا ہے ۔ پندرہ لاکھ روپئے کی رقم ہر شہری کے کھاتے میں جمع کرنے کو انتخابی جملہ قرار دے کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ملک کے نوجوان بیروزگاری سے پریشان ہیں۔ مہنگائی کا کوئی پرسان حال نہیںہے ۔ہر شعبہ میں نراج اور بے چینی کی کیفیت ہے ۔ ان سارے مسائل کیلئے مودی حکومت جوابدہ ہے اورخاص طور پر نریندر مودی کو جواب دینا ہوگا کہ انہوںنے پانچ سال میں ملک اور قوم کیلئے کیا کچھ کیا ہے ۔ محض زبانی جمع خرچ کے ذریعہ ملک کے عوام کو بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا ۔ انہیں اپنے اعلان کے مطابق اپنے 60 مہینوں کا حساب پیش کرنا ہی ہوگا ۔
بیروزگاری کی شرح تشویشناک
ہندوستان میں بیروزگاری کی شرح تشویشناک حد تک بڑھنے لگی ہے ۔ ماہ فبروری کے دوران مرکز برائے نگرانی ہندوستانی معیشت کے اعداد و شمار کے بموجب یہ شرح گذشتہ دو سال میں سب سے زیادہ ہوگئی ہے ۔ اس کے علاوہ ایک اور تشویشناک پہلو یہ بھی ہے کہ جہاں بیروزگاری کی شرح میںاضافہ ہوا ہے وہیں روزگار کی شرح میں بھی دو فیصد کی کمی درج کی گئی ہے ۔ یہ سارا کچھ تشویشناک ہے حالانکہ حکومت نے ملک کے بیروزگار نوجوانوں کو سالانہ دو کروڑ ملازمتیں فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ اگر حکومت اپنے دعووں میں کھری اترتی تو ملک میں پانچ سال میں دس کروڑ روزگار فراہم کئے جانے چاہئے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ پانچ سال میں گنتی کے چند روزگار فراہم کئے گئے ہیں اور جتنے روزگار فراہم کئے گئے ہیں اعداد و شمار کے مطابق اتنے ہی روزگار ختم بھی ہوگئے ہیں۔ یہ حکومت کی صریح ناکامی ہے کہ وہ جہاں روزگار فراہم نہیں کر پا رہی ہے وہیں موجودہ روزگار بھی ختم ہونے لگے ہیں۔ اس سے ملک کے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ ان کے معیار زندگی میں گراوٹ درج کی جا رہی ہے ۔ کہا گیا ہے کہ نومبر 2017 کے بعد سے ہندوستان میں روزگار کی شرح میں گراوٹ درج کی جا رہی ہے اور مختلف فیکٹریاں اور کمپنیاں یا تو بندہونے لگی ہیں یا پھر ان میں ملازمین کی تعداد میں کٹوتی کا سلسلہ سا چل پڑا ہے ۔ حکومت ایسا لگتا ہے کہ اس تعلق سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہے اور اسے روزگار جیسے اہم ترین مسئلہ کی کوئی فکر نہیں ہے ۔ وہ صرف اپنے ایجنڈہ پر عمل آوری کرنے میں مصروف ہے اور وہ اعدادو شمار کے الٹ پھیر کے ذریعہ ملک کے عوام کو گمراہ کرنے میں ہی مصروف ہے ۔ اس طرح سے حکومت نہ صرف عوام کو بلکہ سارے ملک کو دھوکہ دے رہی ہے ۔ اسے فوری طور پر روزگار کے مسئلہ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور نوجوانوں میں اس تعلق سے جو تشویش پیدا ہوئی ہے اسے دور کرنا چاہئے ۔