10 سال حکمرانی کے باوجود منموہن سنگھ کا کوئی ورثہ نہیں : نٹور سنگھ

نئی دہلی ۔ یکم اگسٹ ( سیاست ڈاٹ کام ) سابق وزیر خارجہ مسٹر نٹور سنگھ نے وزیر اعظم کی حیثیت سے ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ 10 سال تک اقتدار پر رہنے کے باوجود منموہن سنگھ نے کوئی ورثہ نہیں چھوڑا ہے ۔ نٹورسنگھ نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی وزارت عظمی میں وزیر خارجہ کی حیثیت سے کام کیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ وزارت خارجہ کی اس دور میں حوصلہ شکنی کی گئی کیونکہ وزارت خارجہ کا کام وزیر اعظم کے دفتر سے کیا گیا تھا ۔ نٹور سنگھ نے اپنی حال ہی میں جاری کردہ سوانح حیات میں تحریر کیا ہے کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی وزارت عظمی کے تعلق سے تاریخ کا فیصلہ کیا ہوگا ؟ ۔ یہ یا تو بالکل مختلف ہوگی یا پھر یہ صرف ایک واقعہ قرار دیا جاسکتا ہے ۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کا ورثہ کیا ہوگا ؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئی ورثہ نہیں ہوگا ۔ نٹور سنگھ یو پی اے حکومت کی پہلی معیاد میں وزیر خارجہ تھے اور 2006 میں عراق کے تیل برائے غذا اسکام میں ان کا نام آنے کے بعد انہیں اس عہدہ سے مستعفی ہوجانا پڑا تھا ۔

لارڈ کرزن کے تعلق سے سر ونسٹن چرچل کے مشہور مقولے صبح سونا ‘ دوپہر چاندی اور شام پیتل تھی نٹور سنگھ نے کہا کہ ڈاکٹر سنگھ کے دور حکومت کو بھی اسی سے مثال دی جاسکتی ہے ۔ نٹور سنگھ نے تحریر کیا کہ حالانکہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کچھ بھی نہیں بھولتے لیکن وہ اپنے جذبات کو چھپانے میں بہت ماہر ہیں۔ انہوں نے تحریر کیا کہ جہاں تک منموہن سنگھ کی خارجہ پالیسی کا تعلق ہے ان کی کوئی پالیسی نہیں تھی ۔ حالات اس وقت مزید خراب ہوگئے جب وزیر اعظم نے جاپان کو اپنا ایک خصوصی قاصد روانہ کیا حالانکہ ٹوکیو میں ہمارا ایک سینئر سفیر موجود تھا ۔ انہوں نے تحریر کیا کہ ڈاکٹر منومہن سنگھ کے وزیر اعظم بننے تک ہماری خارجہ پالیسی کے تعلق سے قومی سطح پر وسیع تر اتفاق رائے تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر سنگھ نے امریکہ کا خیال کرنے کیلئے خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں کیں خاص طور پر جب اختلافات تھے اس وقت بھی خاموشی اختیار کی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان نے کئی ممالک بشمول ہندوستان کی جاسوسی کے مسئلہ پر بھی امریکہ کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا ۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایک ایسے وزیر اعظم سے کیا امید کرسکتے ہیں جنہوں نے ایک موقع پر صدر بش سے کہا تھا کہ جناب صدر ہندوستان کے عوام آپ سے بہت پیار کرتے ہیں ۔ نٹور سنگھ نے سوال کیا کہ اس جملہ کی ادائیگی کے وقت ہم کس طرح کے ہندوستانیوں کو ذہن میں رکھے ہونگے ؟ ۔ انہوں نے اپنی کتاب میں مزید کہا کہ پڑوسیوں کے معاملہ میں بھی ہمارے تعلقات ویسے نہیں تھے جیسے ہونے چاہئے تھے ۔ انہوں نے اپنی کتاب میں مزید کہا کہ منموہن سنگھ اس بات پر بھی مطمئن نہیں تھے کہ حکومت پر سونیا گاندھی کے بہت زیادہ اختیارات تھے ۔ 31 جولائی 2004 کو منموہن سنگھ نے مجھ ( نٹور ) سے کہا تھا کہ ملاقات کیلئے آوں ۔ میں مصروف نہیں تھا اور میں ان کی ہوٹل کے 16 ویں منزل کے کمرہ میں گیا ۔ انہوں نے کہا کہ وہ بہت تنہا ہیں۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ اس وقت کی حکومت کی صورتحال سے غیر مطمئن تھے ۔ اس وقت ہم نے سرکاری امور پر تبادلہ خیال کیا اس کے بعد میں نے ان سے کہا کہ وہ اس کام کیلئے بہت زیادہ موزوں ہیں کیونکہ سونیا گاندھی کو ان میں پورا اعتماد ہے ۔

میں نے ان سے کہا تھا کہ ہم سب ان کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ تھائی لینڈ کے دورہ کے موقع پر پیش آیا تھا ۔ نٹور سنگھ نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی جانب سے امریکہ کے ساتھ نیوکلئیر معاملت کو قطعیت دئے جانے پر بھی سوال کیا ۔ نٹور سنگھ نے کہا کہ تقریبا ایک دہے تک انہوں نے اس معاملہ کے تعلق سے یا اس میں اپنے رول کے تعلق سے کچھ بھی نہیں کہا لیکن اب وہ منہ کھول رہے ہیں۔ اس وقت کی سکریٹری آف اسٹیٹ کونڈالیزا رائیس نے اپنی سوانح حیات میں اس معاملت کے تعلق سے اظہار خیال کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ رائیس نے اپنی کتاب میں کچھ ابتدائی جملوں کے بعد تحریر کیا ہے کہ نٹور سنگھ کا موقف سخت تھا ۔ وہ معاملت چاہتے تھے ۔ منموہن سنگھ کو یقین نہیں تھا کہ وہ اس تعلق سے حکومت کو تیار کرسکیں گے ۔