سود خوروں سے کسان سے زیادہ مسلمان پریشان

حیدرآباد۔ 29 ستمبر (سیاست نیوز) سودخوروں کے مظالم سے پریشان مسلمان اپنی بپتا کسے سنائیں۔ جب مسلمانوں کی آواز کسانوں تک محدود ہوجائے تو پھر مسلمان کسے اپنی آواز کہیں اور کیسے اپنی آواز ان کانوں تک پہنچائے جو نظم و نسق و انتظامی امور کے نگران ہیں۔ شہر حیدرآباد میں جب کبھی مسلم نوجوان سودخوروں کے مظالم کا شکار ہوتے ہیں تو چند یوم تک تیز رفتار سرگرمیاں نظر آتی ہیں لیکن ان سودخوروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کرنے یا ان کے خاتمہ کیلئے قانون سازی کا مطالبہ کرنے کوئی نہیں آتا بلکہ کئی مرتبہ ایسے لوگ جو مظلوم مسلمانوں کے ہمدرد نظر آتے ہیں وہی ان سودخوروں کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں جو مظلوموں کی آواز ہونے کا ادعا کرتے ہیں۔ کسانوں کی خودکشی یقیناً ایک المناک مسئلہ ہے اور اس مسئلہ سے کوئی انکار نہیں کرسکتا لیکن قومی سطح پر جاری اس سنگین مسئلہ سے نمٹنا مرکزی و ریاستی حکومتوں کی ذمہ داری ہے اور اس پر توجہ دلوانا منتخبہ عوامی نمائندوں کا کام ہوتا ہے مگر جب مقامی سطح پر سودخوروں کے مظالم چھوٹے بیوپاریوں کے علاوہ معصوم شہریوں پر بڑھنے لگتے ہیں تو مقامی قائدین و ذمہ داران قوم کو چاہئے ہوتا ہیکہ وہ فی الفور اقدامات کو یقینی بناتے ہوئے نہ صرف سود خوری جیسی لعنت کا خاتمہ کریں بلکہ سودخوروں کے چنگل میں پھنس رہے معصوم مسلمانوں کو ہراسانی سے محفوظ رکھنے کیلئے میدان عمل میں آجائیں لیکن عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ جب کبھی انتخابات کا دور ہوتا ہے اسی وقت مسلمانوں کے مسائل یاد آتے ہیں یا پھر ایسے وقت مسلمان یاد آنے لگتے ہیں جب کبھی اپنی ساکھ خطرہ میں محسوس ہونے لگتی ہے۔ کسان اور مسلمان دونوں میں اگر مظلومیت کے اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو برسہابرس سے ناانصافی کا شکار ہونے کے علاوہ سودخوروں کے مظالم کا زیادہ شکار کسان نہیں ہے بلکہ مسلمان ہے جس کیلئے آواز اٹھانا ضروری ہے اور جہاں تک سودخوروں کے دفاع کا معاملہ ہے اس کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ علاقہ واری اساس پر یہی سودخور تشہیر کے اسپانسر ہوتے ہیں اسی لئے شاید ان کے مظالم کی پردہ پوشی مجبوری بنی ہوئی ہے۔ یہ بات عیاں ہیکہ اس حرام کاروبار میں کون شامل ہیں اور انہیں کس کی سرپرستی حاصل ہے اس کے باوجود مظلوم عوام صرف اس لئے تماش بین بنے ہوئے ہیں چونکہ سودخوروں کی سرپرستی کرنے والوں کے پاس نہ صرف منی پاور ہے بلکہ وہ مسل پاور کے ذریعہ بھی لوگوں کو خوفزدہ کرنے کی پالیسی اختیار کرتے ہیں۔