’’ نکو بھائی چھوٹے کاروبار سے مجھے شرم آتی ‘‘

محمد ریاض احمد
حیدرآباد ۔ 5 ۔ نومبر : ہندوستان بھر میں حیدرآباد فرخندہ بنیاد کو اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ یہاں ہمیشہ سے محنت کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی گئی لاکھ رکاوٹوں کے باوجود انہیں کامیابی و کامرانی حاصل ہوئی ۔ سرکاری ملازمتوں جائیدادوں ، اراضیات سے محرومی کے باوجود شہریان حیدرآباد نے اپنی محنت اور روزگار کے لیے بیرونی ممالک کا رخ کرتے ہوئے تعصب پسندوں کے تعصب ، فرقہ پرستوں کی فرقہ پرستی اور حکام کی جانبداری کا منہ توڑ جواب دیا ۔ نتیجہ میں آج الحمدﷲ ہمارے شہر کو ہندوستان میں مسلمانوں کا مرکز کہا جاتا ہے ۔ خوبصورت مساجد کو دیکھ کر ان کی بلند و بالا میناروں سے گونجنے والی اذانیں سن کر غیروں میں بھی اس بات کا احساس پیدا ہوتا ہے کہ یقینا یہ تاریخی شہر ہندوستانی مسلمانوں کی شان ہے اور ان کے وقار میں اضافہ کا سبب بنا ہے ۔ ماضی میں ایسا بھی ہوا جب فرقہ پرستوں کے بڑے بڑے قائدین اس شہر میں آتے تو یہاں کی مساجد ان کی نظروں میں چبھا کرتی تھیں جس پر بعض یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ہم ہندوستان کے کسی شہر میں نہیں بلکہ استنبول آگئے ہیں ۔ قارئین … محنت ہی انسان کو کامیابی و کامرانی عطاکرتی ہے لیکن آج کل ہمارے شہر میں یہ دیکھا جارہا ہے کہ نوجوان محنت سے جی چرا رہے ہیں ، ماں باپ کی نافرمانی کرتے ہوئے راتوں میں جاگ اور دن میں سو رہے ہیں ۔ ان میں جلد سے جلد دولت مند بن جانے کی خواہش ہے اور کچھ ایسے نوجوان بھی ہیں جو دوکانات شاپنگ مالس وغیرہ میں کام کرتے ہوئے 6 تا 7 ہزار روپئے کما رہے ہیں ۔ بعض تو ہمیشہ پان کے ڈبوں کے قریب اور ہوٹلوں میں سگریٹ کے کش اڑاتے اور چائے کے دور پہ دور چلاتے دکھائی دیتے ہیں ۔

راقم الحروف نے اس سلسلہ میں ایک ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر جناب محمد یوسف سے بات چیت کی ان کے ایک فرزند مفتی ہیں ۔ دوسرے فرزندان انجینئرس ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے نوجوان تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ملازمتیں نہ ملنے کا شکوہ کرتے ہیں ۔ انہیں کسی اور سے شکوہ شکایت کرنے کی بجائے چھوٹے موٹے کاروبار کرنے چاہئے کیوں کہ تجارت ہمارے نبی کریم ﷺ کی سنت ہے ۔ اور اس سنت مبارکہ پر عمل کرنے والوں کے لیے برکت ہی برکت ہے وہ اپنے کاروبار کے خود مالک ہوجاتے ہیں اور دوسروں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرسکتے ہیں ۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج ہمارے محلہ جات کی مساجد میں خاص طور پر نماز فجر میں مصلیوں کی تعداد دیکھنے سے ایسا لگتا ہے کہ یہ حیدرآباد کی مساجد نہیں بلکہ شہر کے باہر کسی دور دراز مقامات پر واقع مساجد ہوں ۔ نماز فجر میں پہلی صف بھی بڑی مشکل سے پُر ہوتی ہے ۔ حالانکہ مسلمانوں کو صبح جلد بیدار ہونے اور شام ہوتے ہی جلد سوجانے کا حکم دیا گیا ہے ۔ لیکن ہمارے نوجوان تو اس کے خلاف ہی عمل کررہے ہیں ۔ شہر کی ایک بڑی منڈی میں کاروبار کرنے والے فصیح الدین کے مطابق وہ ہر روز دیکھتے ہیں کہ غیر مسلم ترکاری فروش اولین صبح پہنچ جاتے ہیں جب کہ سبزی فروشوں کا کاروبار 9 ، 10 بجے دن کے بعد شروع ہوتا ہے اس بارے میں وہ لوگ یہی کہتے ہیں کہ ہم لوگ مسلم بستیوں میں سبزی فروخت کرتے ہیں وہاں دیر سے جانے میں ہی فائدہ ہے ۔ جہاں تک ہمارے شہر میں نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع کا سوال ہے یہاں چھوٹے پیمانے پر کاروبار شروع کرنے کے بہت مواقع ہیں

لیکن ہمارے نوجوان چھوٹا کاروبار کرنے سے شرماتے ہیں ۔ ہماری ملاقات ایک ایسے ہی نوجوان سے ہوئی اس نے بی کام دوم درجہ سے کامیاب کیا ہے اور فی الوقت ملازمت کی تلاش میں ہے ۔ اس نوجوان کے ایک قریبی رشتہ دار نے اسے جب نوکریوں کی تلاش کی بجائے اپنے بل بوتے پر چھوٹا موٹا بزنس شروع کرنے کا مشورہ دیا اور بتایا کہ آج کل کھانے پینے کی اشیاء بہت زیادہ فروخت ہورہی ہیں ۔ ایسے میں تم اپنی بستی کے کسی ایک مقام پر یا فٹ پاتھ پر کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرسکتے ہو ۔ لوگ جواری کی روٹی بہت شوق سے کھاتے ہیں اور کچھ مقامات پر خواتین جواری کی روٹی بینگن کا سالن تیار کرتے ہوئے فروخت کررہے ہیں اور انہیں یومیہ 500 تا 1000 روپئے آمدنی ہورہی ہے ۔ ایسے میں تمہیں کہیں دور جانے کی بجائے اپنے محلہ میں ہی جواری کی روٹی فروخت کرنے کا ایک اسٹال ڈال سکتے ہو جس پر زیادہ مصارف بھی نہیں آتے ۔ اپنے رشتے دار کے اس مشورہ پر اس کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے اس نوجوان نے جو کہا اس بارے میں ہمیں جان کر سخت افسوس ہوا ۔ اس نے کہا ’’ نکو بھائی میں ایسا چھوٹا موٹا کاروبار نئی کرتا مجھے شرم آتی لوگاں کیا بولیں گے پڑھ لکھ کر روٹیاں بیچ را ‘‘ اس نوجوان کی یہ بات سن کر ہم سوچنے لگے کہ کوئی کاروبار چھوٹا نہیں ہوتا چھوٹی تو انسان کی سوچ ہوتی ہے ۔

اگر چھوٹا کاروبار بڑی سوچ رہے تو وہ ایک دن ضرور کامیاب ہوجاتا ہے ۔ ہمارے شہر میں آج دوسرے اضلاع اور ریاستوں سے لوگ آکر بہت کما رہے ہیں ۔ انہیں کاروبار کے چھوٹا یا بڑا ہونے کی فکر نہیں ہوتی بلکہ وہ تو یہ دیکھتے ہیں کہ آمدنی کس کاروبار میں زیادہ ہے ۔ ہماری ملاقات ایک ایسے نوجوان سے بھی ہوئی جو چمپا پیٹ کے علاقہ میں جینس پتلون اور گرم کپڑے فروخت کررہا ہے اس کے مطابق وہ کافی عرصہ تک بیروزگار رہا پہلے اسے بھی اس طرح کے کاروبار میں شرم محسوس ہوتی تھی لیکن اس نے ایک مرتبہ سنجیدگی سے غور کیا تب اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ کوئی کام چھوٹا نہیں ہوتا ۔ اور کسی کام کو برا نہیں سمجھنا چاہئے چنانچہ اب اس کے پاس چار پانچ لوگ ملازمت کررہے ہیں ۔ بہر حال ہمارے نوجوانوں کو یہ جان لینا چاہئے کہ کوئی کسی کا رزق نہیں چھین سکتا محنت اور دیانتداری کے ذریعہ انسان چھوٹے کاروبار کو بھی بڑی تجارت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔ جہاں تک چھوٹے کاروبار کرنے پر شرم آنے کا سوال ہے ۔ شرم تو کام چوری ، جھوٹ ، دھوکہ دہی ، جھوٹی شان و شوکت کے زعم میں مبتلا رہنے کی بیماری پر آنی چاہئے ۔۔