پرانے زمانے کی بات ہے کہ کسی گاؤں میں ایک بہت بڑا اژدھا وہاں کے لوگوں کیلئے دہشت کا باعث بنا ہوا تھا، بہت سے آدمی اس کے زہر سے اپنی جان گنوا چکے تھے۔
ایک دن کسی نیک بزرگ کا اس گاؤں سے گزر ہوا، انہوں نے دیکھا کہ گاؤں والے ایک اژدھے کے خوف سے اپنی زندگی ڈر کر گزار رہے ہیں۔ انہوں نے گاؤں والوں کی مدد کرنی چاہی اور اس جگہ چلے گئے جہاں اژدھا رہتا تھا، انسان کے قدموں کی آواز سن کر اژدھا غصے سے پھنکارتا ہوا، اپنے بل سے باہر نکل آیا، بزرگ نے اپنی روحانی طاقت کو استعمال کرکے اژدھے کو پُرسکون کردیا، اور اسے تلقین کی کہ وہ آئندہ کسی انسان کو نقصان نہ پہنچائے۔ بزرگ کی بات مان کر اژدھے نے وعدہ کرلیا کہ وہ آئندہ کسی کی جان نہیں لے گا اور کسی کو تنگ بھی نہیں کرے گا۔بزرگ گاؤں میں واپس آئے تو وہاں کے لوگوں نے ان کا شکریہ ادا کیا، کچھ دن بعد بزرگ اس گاؤں سے دوسری جگہ چلے گئے۔ اتفاق سے ایک ماہ بعد بزرگ کا اسی گاؤں سے دوبارہ گزر ہوا، لیکن یہاں تو منظر ہی الگ تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ لوگ اژدھے پر پتھر برسا رہے ہیں، یہاں تک کہ بچے بھی اژدھے کو غلیل سے نشانہ بنارہے تھے، اژدھا زخمی ہوچکا تھا لیکن پھر بھی وہ یہاں وہاں بھاگ کر اپنی جان بچانا چاہ رہا تھا ۔ بزرگ کو دیکھتے ہی وہ بولا : ’’ میرا حال دیکھئے، آپ کے کہنے پر میں نے پھر کسی کو نہیں کاٹا اور نہ تنگ کیا، لیکن اس گاؤں والوں نے خود آکر مجھے مارنا شروع کردیا، میں پہلے انہیں نقصان پہنچاتا تھا، کیا وہی ٹھیک تھا؟ ‘‘ ’’ نہیں۔ ‘‘ بزرگ نے جواب دیا۔’’ پہلے تم غلط کررہے تھے اور اب یہ لوگ غلط کررہے ہیں، میں نے تمہیں خواہ مخواہ کسی کو تنگ کرنے سے منع ضرور کیا تھا مگر یہ نہیں کہا تھا کہ تم لوگوں کا ظلم برداشت کرنا شروع کردو، تمہیں اپنے بچاؤ کا پورا حق ہے۔‘‘ اس کے بعد بزرگ نے گاؤں والوں کو منع کیا کہ وہ اژدھے کو آئندہ کبھی تنگ نہ کریں ورنہ وہ اپنے بچاؤ کی خاطر انہیں نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔