نئی دہلی۔/31جولائی، ( سیاست ڈاٹ کام ) لوک سبھا اسپیکر سمترا مہاجن جو خاتون ملازمین کیلئے علحدہ صنفی پالیسی کی تائید کرتی ہیں، نے آج اس بات پر اظہار تاسف کیا کہ ملک میں ایسی بیشتر کمپنیاں ہیں جہاں خاتون ملازمین کیلئے کوئی قابل لحاظ اور قابل عمل علحدہ پالیسیاں نہیں ہیں جبکہ ان کمپنیوں میں خواتین اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز ہیں۔ سی آئی آئی کی جانب سے ’’ خواتین کی قیادت و اختیارات‘‘ کے موضوع پر ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج خواتین اعلیٰ عہدوں پر کام کررہی ہیں لیکن جب ہم انہیں دستیاب سہولتوں کی جانب دیکھتے ہیں ( یعنی وہ سہولتیں جو انہیں حقیقتاً ملنا چاہیئے) جسے ہم جینڈر ( صنفی) پالیسی کہتے ہیں، تو افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ 70 فیصد کمپنیوں میں خاتون ملازمین کو اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود سہولتیں دستیاب نہیں ہیں۔
یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو وہ ( اسپیکر) اپنی جانب سے نہیں کہہ رہی ہیں بلکہ سروے کے بعد جو نتائج سامنے آئے ہیں اس کا تذکرہ کررہی ہیں۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت ایسی پالیسیاں وضع کررہی ہے جو ’’ خاتون دوست‘‘ ہوں گی۔ سمترا مہاجن نے کہا کہ اگر کوئی مخصوص کام یا ذمہ داری ایک مقررہ مدت کے اندر ہی پایہ تکمیل کو پہنچانا ہے تو یہ کام یا ذمہ داری خواتین مقررہ مدت سے بھی کم عرصہ میں انجام دے سکتی ہیں اور اگر خواتین ایسا کرسکتی ہیں تو انہیں سہولتوں سے استفادہ کا حق بھی ہونا چاہیئے اور استفادہ اسی وقت کیا جاسکتا ہے جب سہولتیں دستیاب ہوں۔ سہولتوں کا کہیں نام و نشان ہی نہ ہو تو استفادہ کس سے کریں؟۔ انہوں نے سُنا ہے کہ حکومت ہند اس تعلق سے ایک نئی پالیسی وضع کررہی ہے جو خواتین کے لئے انتہائی مفید ثابت ہوگی۔ سمترا مہاجن نے کہا کہ وہ ہمیشہ سے ’ خاتون دوست‘ بجٹ کی تائید کرتی آئی ہیں جس طرح جینڈر ( صنفی ) بجٹ ہے اسی طرح جینڈر ( صنفی ) پالیسی بھی ہونا چاہیئے۔
92سالہ خاتون کی عصمت ریزی
مظفر نگر۔/31جولائی، ( سیاست ڈاٹ کام ) ایک مقامی عدالت نے ایک 26سالہ نوجوان کو ایک 92سالہ ضعیف خاتون کی عصمت ریزی کرنے مجرم قرار دیا ہے۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ و سیشن جج شیام کمار نے منٹو نامی نوجوان کو تعزیرات ہند کی دفعہ 376 کے تحت عصمت ریزی کا ملزم قرار دیا لیکن اب تک سزا کی میعاد مقرر نہیں کی ہے۔ استغاثہ کی رپورٹ کے مطابق منٹو نے 92سالہ خاتون کی اسی کے مکان میں 10اگسٹ 2011میں عصمت ریزی کی تھی۔ طبی رپورٹ میں بھی عصمت ریزی کی توثیق کی گئی حالانکہ خاتون کا مقدمہ کے دوران انتقال ہوچکا ہے لیکن عدالت میں اس کا بیان ریکارڈ کیا جاچکا ہے۔