چیف منسٹر گجرات سیکولر امیج سے عاری ، اکثر سیاستداں ٹوپی پہن کر مسلمانوں کو بیوقوف بناتے ہیں، مولانا محمود مدنی کا بیان
نئی دہلی ۔ 21 اپریل ۔ ( سیاست ڈاٹ کام ) مسلمانوں کی روایتی ٹوپی پہننے سے انکار کرنے پر بی جے پی لیڈر نریندر مودی کو اگرچہ مختلف گوشوں سے تنقیدوں کا سامنا ہے لیکن اس مسئلہ پر انھیں مسلم طبقہ سے بالآخر ایک حامی و ہمنوا مل گیا ۔ مسلم عالم دین مولانا محمود مدنی نے کہا کہ محض علامتی مقاصد کیلئے مودی کو مسلم ٹوپی نہیں پہننا چاہئے جیسا کہ کئی سیاسی قائدین مسلمانوں کو بیوقوف بنانے کیلئے ایسی علامتی حرکت کیا کرتے ہیں۔ مولانا محمود مدنی نے کہا کہ ’’اگر آپ مجھے تلک لگانے کیلئے کہیں گے تو میں ہرگز اس سے اتفاق نہیں کروں گا ۔ اس انکار سے میں کوئی بُرا آدمی نہیںبن جاؤں گا۔ میں صرف اپنے عمل سے بُرا بن سکتا ہوں۔ یہ ہمارا بدترین تجربہ ہے کہ ٹوپی پہننے جیسے حرکات کئے جاتے ہیں لیکن اصل مسائل حل نہیں کئے جاتے ‘‘ ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ’’کسی کے ٹوپی نہ پہننے کو میں بُرا عمل تصور نہیں کرتا ۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ جو مسلمانوں کو بیوقوف بنانا چاہتے ہیں وہ ایسی ٹوپیاں پہنتے ہیں۔ ایسے سیاستدانوں سے میں اپنے دونوں ہاتھ جوڑکر کہنا چاہتا ہوں کہ وہ ٹوپیاں پہن کر مسلمانوں کو بیوقوف نہ بنائیں۔ انھیں مسلم ٹوپی نہیں پہننا چاہئے ۔ کسی کو بھی ایسا نہیں کرنا چاہئے ۔ یہ محض علامتی بات ہے اور میں علامتی باتیں نہیں چاہتا ۔ میں کام کرنا چاہتا ہوں ‘‘ ۔ مولانا محمود مدنی نے خانگی ٹیلی ویژن چینل آج تک کے سیدھی بات پروگرام میں حصہ لیتے ہوئے یہ اظہار خیال کیا ۔انھوں نے فسادات کو ایک قومی مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ طبقات کے تناظر میں نقصانات کا تخمینہ کرنا بدبختانہ ہے ۔ اگر وہ ( مودی فسادات کے ) خاطی ہیں تو انھیں سزاء دی جانی چاہئے ‘‘۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ’’ہمیں ان ( مودی ) کی صلاحیتوں پر شبھات ہیں ۔ اگر لوگ انھیں مخالفت کے بعد بھی وزیراعظم بناتے ہیں تو یہ اُن کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ہرکسی کے ساتھ مساویانہ سلوک کریں۔ وہ سب کو ایک نظر سے دیکھیں اور ملک کو مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر برباد نہ کریں‘‘ ۔ مولانا مدنی نے تاہم دعویٰ کیا کہ مودی سیکولر امیج کے حامل نہیں ہے اور کہا کہ وہ ان کے بارے میں یہ عام نظریہ ہے کہ وہ سیکولر نہیں ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ غلط ہو لیکن یہ عام نظریہ ہے اور اس نظریہ سے میں بھی متفق ہوں ۔ ان کی شناخت تباہی و بربادی سے مربوط ہے ۔ اگر وہ ترقی و کامیابی کی بات کرتے ہیں تو یہ قابل ستائش ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ اب وہ سیکولر ظاہر ہورہے ہیں اور فرقہ وارانہ نوعیت کا ایک لفظ بھی استعمال نہیں کیا ہے ۔ یہ دراصل ملک کی مستحکم روایات کا نتیجہ ہے ۔ خدا کرے کہ ( مودی کا ) دل بھی بدل گیا ہو ۔ یہ بہت اچھی بات ہوگی ‘‘ ۔ مولانا محمود مدنی نے کہا کہ ہندوستان کا سیکولر نظریہ بہت مضبوط ہے ، کون برسراقتدار آتا ہے کون نہیں آتا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ہندوستانی عوام کی اکثریت سیکولر ہے ۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’وہ ( مودی ) وزیراعظم بنتے ہیں یا نہیں یہ فیصلہ انتخابات کے بعد ہوگا لیکن اس مسئلہ پر ڈر خوف پھیلانے کی کوشش کی جاری ہیں لیکن ڈر خوف کا نظریہ درست نہیں ہے ۔ میں خوف کے اس نظریہ سے اتفاق نہیں کرتا ۔ کچھ لوگ اس کی کوشش کریں گے لیکن ہمارا ملک بہت طاقتور ہے اور عدم تشدد کا جذبہ مستحکم ہے ۔ یہاں اخوت اور کشادہ قلبی ہے ‘‘ ۔ بی جے پی لیڈر گری راج سنگھ کے بیان ’’مودی کے مخالفین کو پاکستان چلے جانا چاہئے ‘‘ پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے مولانا محمود مدنی نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان جانے کے لئے گری راج سنگھ ہی سب سے زیادہ موزوں ہیں۔ انھیں ( گری راج کو ) پاکستان بھیج دیا جانا چاہئے کیونکہ ان جیسے قائدین کیلئے ہندوستان میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔ سماج وادی پارٹی کے لئے اعظم خان کے تبصروں پر پیداشدہ تنازعہ کی اہمیت کو گھٹاتے ہوئے مولانا محمود مدنی نے کہا کہ اعظم خاں کے تبصروں میں ایک اچھا پہلو بھی ہے ۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’ایک اندرونی و بیرونی سازش کے تحت مسلمانوں کو اپنے مادر وطن سے غیر مربوط کیا جارہا ہے ۔ اگر کوئی ہمارے ملک کو بری نظر سے دیکھتا ہے تو ہندوستانی مسلمان اُس کی آنکھیں نکال لیں گے ۔