نئی دہلی 29 اگست (سیاست ڈاٹ کام )مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور نجمہ ہبت اللہ نے مبینہ طور پر تمام ہندوستانیوں کو ’’ہندو ‘‘قرار دیتے ہوئے ایک تنازعہ کھڑا کردیا تاہم انہوں نے آج اپنے تبصرہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے تمام ہندوستانیوں کو ’’ہندی‘‘ کہا ہے۔ جس کا تعلق مذہب سے نہیں بلکہ قومیت کی شناخت سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے تمام ہندوستانیوں کو ہندو نہیں کہا جاسکتا ۔ہبت اللہ نے اشارہ دیا کہ شناخت کی یکسانیت تمام ہندوستانیوں کیلئے ضروری ہے وہ خبر رساں ادارہ پی ٹی آئی سے بات چیت کررہی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ ’’دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس کے تین مختلف نام تین زبانوں میں ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عربی میں ہندوستانیوں کو ہندی ،فارسی میں ہندوستانی اور انگریزی میں انڈین کہا جاتا ہے تینوں ایک ہی ہیں۔ اس سوال پر کہ کیا ان کے نکات نظر آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے تبصروں سے متاثر ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانیوں کو ہندو کہا جانا چاہئے ۔ انہوں نے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ۔ انہوں نے کہا کہ میں اس پر کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہتی ۔ انہوں نے اقبال کے مشہور مصرع کا حوالہ دیا ۔ ’’ہندی ہے ہم وطن ہے ہندوستان ہمارا ‘‘ہبت اللہ نے ذرائع ابلاغ کی خبروں کے بموجب کہا تھا کہ تمام ہندوستانیوں کو ہندو قرار دینا غلط نہیں ہے ۔ کانگریس نے اس پر سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں دستور کا مطالعہ کرنا چاہئے ۔ کانگریس قائد منیش تیواری نے کہا کہ ہم نجمہ جی کی بے حد عزت کرتے ہیں لیکن بہتر ہوگا کہ وہ دستور کا مطالعہ کرلیں ۔
دستور میں کہا گیا ہے ’’بھارت ‘‘ اور اس اعتبار سے اس کے ہر ہندوستانی کو ’’بھارتیہ‘‘کہا جائے گا ۔ ہندو نہیں۔ این سی پی قائد طارق انور نے ہبت اللہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اُن کا مبینہ تبصرہ ’’بد بختانہ ‘‘ہے ۔ ان پر تنقید کرتے ہوئے طارق انور نے کہا کہ اگر انہوں نے یہ بیان دیا ہے تو یہ انتہائی بد بختانہ ہے میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے ایسا بیان اس بات کو یقینی بنانے کیلئے دیا ہے کہ انہیں بحیثیت وزیر برقرار رکھا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ مولانا آزاد کے خاندان کی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ برسر اقتدار رہنے کیلئے کسی حد تک بھی جاسکتی ہے تاہم بی جے پی نے کہا کہ تنازعہ ان کی جانب سے وضاحت کے بعد ختم ہوجانا چاہئے ۔ بی جے پی قائد مختار عباس نقوی نے کہا کہ یہ اب ایک بند باب ہے ۔ وضاحت کے بعد اسے بند کردیا جانا چاہئے ۔ بی جے پی کے ترجمان سمہل پاترا نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ نجمہ جی کا مطلب ہندوستان کو ایک ثقافتی اکائی قرار دینا تھا۔ ایسے مسائل کو مذہبی نقطہ نظرسے نہیں دیکھے جانے چاہئے۔کثرت میں وحدت ملک کے اخلاقی اقدار میں سے ایک ہے اور ہم سب کو اس پر یقین ہے ۔کابینی وزیر اور بی جے پی قائد نریندر سنگھ تومر نے کہا کہ سپریم کورٹ ہندوازم کو ایک طرز زندگی قرار دے چکی ہے اور نجمہ ہبت اللہ نے کہا ہے کہ یہ معاملہ تمدن سے تعلق رکھتا ہے ۔