’’بھائی! میری ساس اور خسر نے مجھے بہت مارا، بلیڈسے جگہ جگہ کاٹ دیا اور آگ لگادی‘‘

عام آدمی کی خاص بات
’’بھائی! میری ساس اور خسر نے مجھے بہت مارا، بلیڈسے جگہ جگہ کاٹ دیا اور آگ لگادی‘‘
جہیز کیلئے ساس و خسر کی بربریت کا شکار حسینہ بیگم بھائی کے سامنے اقبالی بیان ریکارڈ کرواکر فوت
حیدرآباد ۔ 22 جون (ابوایمل) انسان اور حیوان میں بس اتنا فرق ہوتا ہے کہ انسان میں موجود روح آدم اسے ’’انسانی صفات اور اقدار کے شعور‘‘ کے ساتھ زندہ رکھے ہوئے ہوتی ہے جبکہ حیوان کی روح ’’نیم مردہ‘‘ ہوتی ہے اور اس میں ’’احساس و شعور‘‘ کی جگہ صرف ’’شر‘‘ یا شرپسندی‘‘ باقی رہ جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بھی ’’معذرت کے ساتھ ‘‘ ایسے حیوان صفت اور نیم مردہ لوگوں کی کمی نہیں ہے جن کا حلیہ گوشت پوشت کی وجہ سے انسانوں جیسا ہوتا ہے لیکن ان کی صفات کو دیکھ کر حیوانیت بھی شرم سار ہوجائے۔ اگر اس کی ایک جھلک دیکھنی ہے تو ذرا اس واقعہ کے سنگینی کو دیکھے جو گنجان مسلم آبادی والے علاقہ کشن باغ کے محلہ سلیمان نگر میں پیش آیا جہاں درندہ صفت ساس اور خسر نے اپنی بہو کو مزید جہیز نہ لانے پر اس انداز میں قتل کردیا کہ ’’بے دردی، بے رحمی ،بربریت اور درندگی جیسے لفظ کا استعمال بھی یہاں پھیکا پڑ جائے۔ واقعہ یوں ہے کہ 13 جون بروز جمعہ صبح کے وقت 28 سالہ حسینہ بیگم کو مبینہ طور پر ان کی ساس ممتاز بیگم اور خسر اسمعیل نے مزید جہیز کا مطالبہ کرتے ہوئے پہلے بلیڈ سے جسم پر کئی ضربات لگاکر قتل کرنے کی کوشش کی لیکن کافی خون بہنے کے باوجود لڑکی جب اپنے معصوم بچوں کی خاطر اپنی روح کو جسم سے آزاد کرنے تیار نہ ہوئی تو دونوں نے اسے پٹرول ڈال کر آگ لگادی، یہ سوچ کر اگر ان کی بہو بچ گئی تو پھر معاشرہ میں بدنامی ان کا مقدر ہوگی اور قانون کا شکنجہ ان کی گردن تک پہنچ جائے گا۔ حسینہ بیگم چیختی چلاتی ہوئی اپنی ساس اور خسر کی چابک دستی جھیل رہی تھی اور اس کے ارمانوں کا گھر ہی اس کی قتل گاہ میں تبدیل ہوگیا تھا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ تنگ مکانوں میں رہنے والے پڑوسیوں تک شاید حسینہ بیگم کے چیخنے چلانے کی آواز تک نہیں پہنچ رہی تھی ہوگی ۔ ویسے بھی’’تنگ‘‘ مکانوں والے ہمارے معاشرے میں انسانیت پروری کے جذبہ کے ساتھ رہنے کا ’’ڈھنگ‘‘ اور پڑوسی کی مدد قدر شناسی کا ’’رنگ‘‘ باقی کہاں ہے،بہر حال لڑکی کو جلا دینے کے بعد ساس اور خسر نے اسے خودکشی ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے از خود پولیس کو مطلع کیا ۔ اس کے بعد سے ساس ممتاز بیگم، خسر اسمعیل اور شوہر فیروز دونوں بچوں کے ساتھ فرار ہے ۔ حسینہ بیگم کو 80 فیصد جھلسی ہوئی حالت میں عثمانیہ دواخانہ میں شریک کروایا گیا جہاںا وہ موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا ہے لیکن اپنی روح کو جسم سے پرواز کرنے کی اجازت نہیں دے رہی ہے ۔ شاید اپنے بچوں کا احساس اسے ایسا کرنے پر مجبور کئے ہوئے ہے ورنہ اپنوں کے ہاتھوں بے رحمی اور درندگی کا شکار ہونے کے بعد تو کوئی جانور بھی زندگی کی تمنا کو ’’عاق‘‘ کردے۔ جب اس سلسلہ میں نمائندہ خصوصی نے دواخانہ عثمانیہ پہنچ کر والدین و رشتہ داروں سے واقعہ کی حقیقت جاننے کی کوشش کی تو سب سے پہلے یہ بات دیکھنے میں آئی کہ بیلاری (کرناٹک) کے رہنے والے لڑکی کے والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ گاوں والے بھی دواخانہ کے باہر حسینہ بیگم کی زندگی کیلئے د ست بہ دعا ہیں ۔ اس موقع پر لڑکی کے بھائی اور والدہ نے بتایا کہ ’’حسینہ بیگم کے سسرالی رشتہ دار مزید جہیز کیلئے اکثر ان کی لڑکی کو ہراساں کیا کرتے تھے ۔ حسینہ بیگم اور ان کے شوہر فیروز کی شادی کو 10 سال کا عرصہ بیت گیا اور ان کو ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہے۔ ان کی لڑکی کے ہونٹوں اور گالوں کو بھی کاٹ دیا گیا ہے۔ بلیڈ سے لگائے گئے ضربات کی وجہ سے کافی خون بہہ جانے کے بعد بھی لڑکی کے زندہ بچ جانے پر پٹرول ڈال کر آگ لگادی گئی‘‘۔ دوسری طرف ڈاکٹر کا کہنا ہے لڑکی 80 فیصد تک جھلس گئی ہے اور کسی بھی وقت زندگی اور موت کی لڑائی ہار سکتی ہے۔ لڑکی کی والدہ اور بھائی کا یہ بھی الزام ہے کہ پولیس نے شاید ساز باز کرلیا ہے جس کی وجہ سے خاطی سسرالی رشتہ داروں کی ابھی تک گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے ۔ حتی کہ پولیس ہم سے بات تک نہیں کررہی ہے جبکہ لڑکی کے بھائی نے بستر مرت پر حالت موت و زیست میں پڑی اپنی بہن کا بیان اپنے موبائیل فون میںریکارڈ کیا ہے جس کی روداد اس طرح ہے۔ ’’بھائی ‘‘ مجھے بہت مارا ،بلیڈسے جگہ جگہ کاٹ دیااور اس کے بعد آگ لگادی، میں صرف اپنے بچوں کیلئے زندہ رہنا چاہتی ہوں، مجھے بہت جلن و تکلیف ہورہی ہے۔‘‘ ابھی راقم الحروف اس دردناک روداد کو ضبط تحریر کرنے میں مصروف ہی تھا کہ یہ افسوسناک خبر ملی کہ حسینہ بیگم نے 5 دن تک دواخانہ میں زندگی اور موت کی لڑائی لڑنے کے بعد بلآخر منگل کی شب زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ دیا۔ انسان کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ انسان اور حیوان کی طرف غربت اور مفلسی میں بھی فرق ہوتا ہے ۔ اگرچیکہ غربت اور مفلسی دونوں ہی سماجی برائیاں ہیں لیکن غربت مستقل نہیں ہوتی اور انسان کو محنت و جستجو کے ذریعہ سنبھلنے اور خودداری کے ساتھ جینے کا موقع دیتی ہے جبکہ مفلسی دائمی ہوتی ہے اور انسان کو تاحیات جھگڑے رہتی ہے۔ مفلسی کی یہ لعنت انسان میںصفات آدم جیسے انسانیت، احساس ،فہم اور ادراک خوداری اور غیرت کر کے اسے حیوان بنادتی ہے ۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک طرف دینی اجتماعات جاری ہیں اور دین کی آبیاری و پیروکاری کا مظاہرہ بھی ہورہا ہے تو دوسری طرف طوفان بدتمیزی اور بدکرداری کے ساتھ ساتھ انسانیت کو شرمسار کردینے والی بربریت بھی جاری ہے۔ تعلیم پر دولت کو ترجیح دی جارہی ہے اور اخلاق و آداب کا درس اول کو اہمیت دیئے بغیر ہی رشتے طئے کئے جارہے ہیں ۔ کسی کو بھی اسلام کی بنیادی روح کا علم و ادراک ہی نہیں اور نہ ایمان کے تقاضوں کی کوئی فکر ہے ۔ بس دین اسلام سے وابستگی اور اہل کتاب ہونے کا ڈھونگ کھلے عام رچا جارہا ہے ۔ حقوق اللہ میں ریاکاری اور حقوق العباد سے روگردانی ہی قوم کی پہچان بن گئی ہے ۔ معاشرے بھی اس قدر بے بس ہے کہ اپنی ذمہ داری اور فریضہ انسانیت سے راہ فرار کو ہی اپنی عافیت ،نجات اور بقاء کا ذریعہ تصور کر کے بیٹھا ہوا ہے۔abuaimalazad@gmail.com