احمدآباد، 2 اگسٹ (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ جج جسٹس اے آر دَوے نے آج کہا کہ ہندوستانیوں کو اپنی قدیم روایات کی طرف پلٹنا چاہئے، اور ’مہابھارت‘ اور ’بھگود گیتا‘ جیسی تحریروں سے بچوں کو ابتدائی عمر میں ہی متعارف کرایاجانا چاہئے۔ ’’ہماری قدیم روایت جیسے گرو شیشیا پرمپرا کھوگئی ہے، اگر میں صاحبِ اقتدار ہوتا تو ہمیں ہمارے ملک میں ان تمام مسائل (تشدد اور دہشت گردی) کا سامنا ہوا نہیں ہوتا،‘‘ یہ الفاظ جسٹس دَوے کے ہیں، جو ’عصری مسائل اور عالمی معیشت کے دور میں انسانی حقوق کے چیلنجس‘ کے موضوع پر یہاں انٹرنیشنل کانفرنس میں مخاطب تھے۔ انھوں نے کہا کہ اب ہم ملکوں میں دہشت گردی دیکھ رہے ہیں۔
اکثر ممالک جمہوری ہیں … اگر کسی جمہوری ملک میں ہر کوئی اچھا ہو تو وہ فطری طور پر ایسے شخص کو منتخب کریں گے جو بہت اچھا ہو۔ اور وہ شخصیت کسی کو بھی نقصان پہنچانے کا کبھی نہیں سوچے گی۔ ’’لہذا ہر انسان میں پوشیدہ تمام اچھے اوصاف کو ابھارتے ہوئے ہم تشدد کو ہر جگہ روک سکتے ہیں۔ اور اس مقصد کیلئے ہمیں دوبارہ ہماری پرانی باتوں کی طرف لوٹنا پڑے گا۔‘‘ جج موصوف نے یہ تجویز بھی رکھی کہ بھگود گیتا اور مہابھارت کو طلبہ کیلئے درجہ اول سے متعارف کردینا چاہئے۔ جسٹس دَوے نے کہا:
’’ایسا کوئی فرد جو بہت سکیولر ہو … نام نہاد سکیولر (اس تجویز سے) اتفاق نہیں کرے گا … اگر میں ہندوستان کا ڈکٹیٹر ہوتا تو میں اسکول کی پہلی جماعت میں گیتا اور مہابھارت پڑھانے کا رواج ڈال دیتا۔ یہی طریقہ ہے کہ آپ زندگی گزارنا سیکھ سکتے ہو۔ میں معذرت چاہتا ہوں، اگر کوئی یہ کہے کہ میں سکیولر ہوں یا میں سکیولر نہیں ہوں۔ لیکن اگر کچھ بھی اچھائی ملے تو ہمیں کہیں سے اسے حاصل کرنا پڑے گا۔‘‘ اس موقع پر بمبے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ، جسٹس موہت شاہ نے کہا کہ نظریہ ٔعالمی معیشت کے پیچھے ’’ہر کسی کی ترقی‘ کا اصل مقصد کارفرما ہونا چاہئے۔
انھوں نے کہا، ’’گلوبل ولیج کے نظریہ کا یہ مطلب نہیں کہ ہر کوئی بس دنیا کی سوچ میں جٹ جائے، لیکن اسے تمام کیلئے ترقی کی اصطلاحوں تک وسعت دینا چاہئے … اگر ہم عالمی معیشت کے فوائد کو بانٹیں گے نہیں تو اس سے سنگین مسائل پیدا ہوتے جائیں گے۔‘‘