’حیدرآباد میں باحجاب خواتین کو دیکھ کر میرے تمام خدشات دور ہوگئے‘

باحجاب افغان طالبہ کا تاثر، چار افغان طالبات کا ادارہ سیاست کے خطاطی کورس سے استفادہ
حیدرآباد ۔ 24 جنوری ۔ حیدرآباد میں زندگی کے ہر شعبہ میں اسلامی تہذیب کی جھلک نظر آتی ہے۔ ہندوستانی یونیورسٹیز میں اعلیٰ تعلیم کیلئے جب میں ہندوستان آرہی تھی اس وقت میرے دل میں اس ملک کو لے کر کافی خدشات تھے چونکہ میں مکمل طور پر حجاب میں رہتی ہوں اس لئے یہ خیال مجھے بار بار ستا رہا تھا کہ ہندوستان میں ایک باحجاب لڑکی کے ساتھ لوگوں کا رویہ کیا ہوگا۔ تاہم جب ہم حیدرآباد پہنچے تو یہاں کی مسلم تہذیب باحجاب طالبات و خواتین کو بڑی آزادی کے ساتھ گھومتے پھرتے دیکھ کر تمام خدشات رفوچکر ہوگئے۔ اس تاریخی شہر میں خواتین کے ساتھ اچھا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ برقعہ پوش خواتین و طالبات کو احترام و عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ حیدرآبادی مہمان نواز اور انسانیت کی قدر کرنے والے بامروت لوگ ہیں۔ ان لوگوں میں پٹھانوں جیسی مروت پائی جاتی ہے۔ یہ خیالات عثمانیہ یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں ایم اے کرنے والی افغان طالبہ عالیہ سعادت کے ہیں جو مکمل حجاب کا اہتمام کرتی ہیں۔ آپ کو بتادیں کہ انڈین کونسل آف کلچرل ریلیشنس کے اسکالر شپ پروگرام کے تحت دیگر ممالک بشمول افغان طلبہ کو ہندوستانی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ اس پروگرام کے تحت بے شمار افغان طلباء و طالبات عثمانیہ یونیورسٹی کے علاوہ ہندوستان کی دیگر یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہیکہ عالیہ سعادت کی طرح فوزیہ، نورالھدیٰ اور فرشتہ واعظ بھی عثمانیہ یونیورسٹی میں بالترتیب انگلش اور پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کررہی ہیں اور چاروں افغانی طالبات فی الوقت ادارہ سیاست میں خطاطی مصوری اور انگریزی خطاطی کی تربیت حاصل کررہی ہیں۔ ساتھ ہی اردو بھی سیکھنے کی خواہاں ہیں۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل سے تعلق رکھنے والی فوزیہ نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ انہیں اس شہر میں کبھی اجنبیت کا احساس نہیں ہوا۔ یہاں کے لوگ بہت ملنسار، ہمدرد ہیں۔ ہندو ہوں یا مسلمان سب مہمان نواز ہیں۔ ایم اے پولیٹیکل سائنس کی طالبہ فرشتہ واعظ کے مطابق وہ شہر حیدرآباد کی تاریخی عمارتوں، ان کے فن تعمیر کو دیکھ کر کافی متاثر ہوئی ہیں۔ خاص طور پر سالارجنگ میوزیم، چارمینار، مکہ مسجد، عثمانیہ جنرل ہاسپٹل، ہائیکورٹ کی عمارت، گولکنڈہ قلعہ وغیرہ نے ان لوگوں کو بہت متاثر کیا۔ صوبہ ننگرہار سے تعلق رکھنے والی عالیہ سعادت کہتی ہیں کہ حیدرآباد میں باحجاب خواتین کو دیکھ کر وہ کافی متاثر ہوئی ہیں۔ ان کے والد بھی ایک خطاط اور آرٹسٹ ہیں۔ حسن اتفاق سے وہ اپنی سہیلیوں کے ہمراہ سالارجنگ میوزیم کے مشاہدہ کیلئے آئی تھیں کہ وہاں ادارہ سیاست اور ایرانی قونصل خانہ کے زیراہتمام خطاطی کے نمونوں کی نمائش جاری تھی۔ جناب عبداللطیف سے ان طالبات کی ملاقات ہوئی اور پھر ان لوگوں نے ان سے خطاطی مصوری سیکھنے کا تہیہ کیا۔ ایک استفسار پر جناب عبداللطیف نے بتایا کہ ایک سال تک ان طالبات کو تربیت دیں گے۔ دفتر سیاست میں ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں سے ملاقات کے دوران ان افغان طالبات نے بتایا کہ ہندوستان اور افغانستان کے قریبی دوستانہ تعلقات ہیں۔ جناب زاہد علی خاں کے یاد دلانے پر ان طالبات نے یہ بھی بتایا کہ افغانستان کے پہاڑوںمیں عقیق اور فیروزہ جیسے قیمتی پتھر کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ ان کا ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور اب وہاں والدین اپنی لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ مرکوز کررہے ہیں۔ عالیہ سعادت، فوزیہ، مزار شریف سے تعلق رکھنے والی نورالھدیٰ اور فرشتہ واعظ کے خیال میں حیدرآبادی پکوانوں کا جواب نہیں بالخصوص مسالہ دار بریانی بہت لذیذ ہوتی ہے۔ ان طالبات کو امید ہیکہ عثمانیہ یونیورسٹی کی طرح تلنگانہ اور آندھرا کے ساتھ ہندوستان کی دیگر یونیورسٹیز میں افغان طلبہ کی تعداد میں آنے والے برسوں میں زبردست اضافہ ہوگا۔ ویسے بھی دہلی کی جامعہ ہمدرد یونیورسٹی میں بھی افغان طلبہ کی ایک کثیر تعداد تعلیم حاصل کررہی ہے۔ ہندوستانی حکومت نے ہر سال 1000 افغان طلبہ کو اسکالر شپس دینے کی پیشکش کی ہے۔ mriyaz2002@yahoo.com