ٹی آر ایس اور کانگریس کیڈر متحرک، مجلس کے ناراض قائدین ربط میں
حیدرآباد۔ 27 ڈسمبر (سیاست نیوز) 2019ء کے عام انتخابات پرانے شہر میں اہم سیاسی تبدیلیوں کا نقیب ثابت ہوسکتے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں ٹی آر ایس اور کانگریس پارٹی نے پرانے شہر میں اپنی طاقت مستحکم کرنے اور صفوں کی درستگی کا جو بیڑا اٹھایا ہے اس سے مقامی جماعت کے لیے آئندہ اسمبلی انتخابات دشوارکن بن جائیں گے۔ سوشل میڈیا کے موجودہ دور میں مقامی سیاسی جماعت کی درپردہ سرگرمیاں عوام میں آشکار ہوچکی ہیں جس کے نتیجہ میں جماعت کے تعلق سے عوامی ناراضگی میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔ فرقہ پرست طاقتوں کو مستحکم کرنے کے لیے مختلف ریاستوں کے انتخابات میں حصہ لینا اور سیکولر ووٹوں کی تقسیم کو یقینی بنانا مقامی جماعت کے لیے عام بات ہوچکی ہے۔ بہار، اترپردیش، مہاراشٹرا کے حالیہ تجربات نے شہر کے مسلمانوں کے شعور کو بیدار کردیا ہے۔ دوسری طرف برسر اقتدار ٹی آر ایس سے اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے مفاہمت کرتے ہوئے عوامی مسائل کو نظرانداز کرنے کی پالیسی بھی عوام کے لیے تکلیف دہ بن چکی ہے۔ ان حالات میں پرانے شہر کے عوام کو کسی ایسے متبادل کی تلاش ہے جو دیانتداری کے ساتھ عوام کی خدمت کرے۔ سابق میں اگرچہ عوام کے لیے وقتی طور پر متبادل منظرعام پر آئے لیکن منظم سیاسی سازش کے ذریعہ متبادل جماعت کو کمزور کردیا گیا۔ عوام میں پھیلی اس بے چینی کو دیکھتے ہوئے ٹی آر ایس اور کانگریس نے پرانے شہر کا رخ کیا ہے اور تیزی سے اپنی جڑیں مضبوط کررہی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ دونوں جماعتوں کی اعلی قیادت نے اپنے کیڈر کو مکمل آزادی دے دی ہے کہ وہ پرانے شہر میں پوری شدت کے ساتھ داخل ہوں اور عوام کے درمیان پہنچ کر ان کے مسائل سے آگاہی حاصل کریں۔ یہ وہ جماعتیں ہیں جن کا پرانے شہر میں مضبوط کیڈر ہے اور وہ آئندہ اسمبلی انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہونے کی طاقت رکھتے ہیں۔ سابق میں ہمیشہ یہ دیکھا گیا کہ برسر اقتدار پارٹی سے مفاہمت کرتے ہوئے مقامی جماعت نے پرانے شہر میں کسی اور جماعت کے کیڈر کو متحرک ہونے نہیں دیا۔ کانگریس، تلگودیشم اور 2001ء سے ٹی آر ایس کے کیڈر کو پرانے شہر میں متحرک ہونے سے روکا گیا۔ مذکورہ جماعتوں کی قیادتوں نے ہمیشہ مصلحت پسندی سے کام لیتے ہوئے پرانے شہر میں کیڈر کے جذبات کو نظرانداز کیا اور پرانے شہر کے اسمبلی حلقوں میں مجلس کے سفارش کردہ افراد کو انتخابات میں امیدوار بناتے ہوئے ان کی کامیابی میں مدد کی گئی۔ اب گزشتہ تین برسوں سے کانگریس، تلگودیشم اور ٹی آر ایس قائدین کو مجلس کی حقیقی صورتحال کا بخوبی اندازہ ہوچکا ہے اور انہوں نے اپنے کیڈر کو متحرک ہونے کی مکمل اجازت دے دی ہے۔ کانگریس اور ٹی آر ایس کا کیڈر پرانے شہر کے تمام اسمبلی حلقوں میں موجود ہے جبکہ تلگودیشم کا کیڈر مخصوص علاقوں تک محدود ہوچکا ہے اور اس کے بیشتر قائدین ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔ تینوں جماعتوں کے متحرک ہونے سے مقامی جماعت الجھن کا شکار ہے کیوں کہ اس کی کارکردگی سے ناراض عوام کی ان جماعتوں کو تائید حاصل ہورہی ہے۔ میٹرو ٹرین پرانے شہر میں چلانے کے مسئلہ پر حالیہ دنوں میں کل جماعتی احتجاج سے یہ واضح ہوگیا کہ عوام پراجیکٹ کی راہ میں مقامی جماعت کی رکاوٹ سے خوش نہیں ہیں۔ ٹی آر ایس اور دیگر جماعتوں نے مجلس کے مضبوط سمجھے جانے والے علاقوں میں ریالی کا اہتمام کرتے ہوئے مقامی جماعت کے خلاف نعرے بازی کی۔ یہ تبدیلی خود اس بات کی دلیل ہے کہ عوام خود بھی مقامی جماعت کی پالیسی سے عاجز آچکے ہیں ورنہ چند سال قبل تک ان کے گڑھ میں مخالفت کے نعرے کا تصور محال تھا۔ اب تو عوام خود ہی مخالف مجلس احتجاج میں رضاکارانہ طور پر شامل ہورہے ہیں۔ یہ حالات 2019ء انتخابات میں اہم تبدیلیوں کا سبب بن سکتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ برسر اقتدار ٹی آر ایس نے اپنے کیڈر کو اس بات کی اجازت دے دی ہے کہ وہ پرانے شہر میں بوتھ واری سطح پر پارٹی کو مستحکم کریں۔ اسی طرح کانگریس نے مخالف مجلس پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے عوامی مسائل کے لیے جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت سے اگرچہ مقامی جماعت کی مفاہمت بظاہر دکھائی دے رہی ہے لیکن پارٹی کے استحکام کے معاملہ میں ٹی آر ایس قائدین نے کوئی سمجھوتہ کرنے سے انکار کردیا ہے اور غیر محسوس طریقہ سے پرانے شہر میں پارٹی کو مستحکم کرنے کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ اس سلسلہ میں مجلس کے سابق کارپوریٹرس ا ور ناراض قائدین سے بھی ربط قائم کیا جارہا ہے اور انہیں عہدوں کا پیشکش کرتے ہوئے شمولیت پر راضی کرنے باقاعدہ مہم جاری ہے۔ شہر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر وزیر نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کئی مجلسی قائدین ٹی آر ایس سے ربط میں ہیں اور 2019ء انتخابات میں پارٹی سنجیدگی سے مقابلہ کرے گی ۔