نیویارک ؍ سڈنی ۔ یکم ؍ جنوری (سیاست ڈاٹ کام) دنیا بھر میں لوگ نئے عیسوی سال کے آغاز پر منعقدہ تقریبات میں شرکت کر رہے ہیں اور بڑے شہروں میں آتش بازی کے روایتی مظاہروں سے نئے سال کا استقبال کیا گیا ہے۔ حسب روایت نئے سال کی پہلی بڑی عوامی تقریبات نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں منعقد ہوئیں۔ جس کے بعد ایشیا، مشرقِ وسطیٰ، افریقہ، یورپ اور پھر امریکہ میں رات کے بارہ بجتے ہی لاکھوں افراد نے اہم مقامات پر جمع ہو کر 2016 کا جشن منایا۔ نیوزی لینڈ میں سب سے بڑی تقریب آکلینڈ کے اسکائی ٹاور پر ہوئی جہاں ہزاروں لوگوں نے ہم آواز ہو کر 2015 کی آخری گھڑیوں کی الٹی گنتی کی اور پھر نئے سال کا استقبال خوبصورت ’لیزر شو‘ اور آتش بازی سے کیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس تقریب میں کم و بیش 25 ہزار لوگ شریک ہوئے۔ نیوزی لینڈ کے پڑوسی ملک آسٹریلیا میں نصف شب پر سڈنی کے ساحل کے قریب ’ہاربر اینڈ اوپرا ہاؤس‘ کے ارد گرد کا علاقہ اس وقت روشنیوں میں نہا گیا جب آتش بازی شروع ہوئی۔ حکام کا اندازہ تھا کہ اس مرتبہ تقریباً دس لاکھ افراد اس آتش بازی کو دیکھنے آئے۔ ایشیا میں ’چڑھتے سورج کی سرزمین‘ کہلائے جانے والے ملک جاپان میں لوگوں نے ٹوکیو ٹاور کے نزدیک فضا میں غبارے چھوڑ کر جبکہ جنوبی کوریا میں گھنٹیاں بجا کر نئے سال کا استقبال کیا۔ جوں جوں نئے سال کی پہلی گھڑی ایشیا کے دیگر ممالک تک پہنچی تو ہانگ کانگ، سنگاپور اور بیجنگ میں بھی آتش بازی کے مظاہرے ہوئے۔ چین کے مشرقی شہر ین تائی میں نئے سال کا استقبال انوکھے انداز میں کیا گیا اور چار غوطہ خوروں نے موسیقی کے آلات کے ساتھ ایک بڑے ٹینک میں اتر کر زیرِ آب کنسرٹ پیش کیا۔ خلیجی ریاستوں میں اس سال بھی سب سے بڑی عوامی تقریب دبئی میں دنیا کی سب سے بلند عمارت برج الخلیفہ پر منعقد ہوئی جہاں آتش بازی کا مظاہرہ دیکھنے کے لیے ہزاروں افراد جمع تھے۔ مصر میں نئے سال کی تقریبات قاہرہ کے قریب واقع تاریخی اہرام پر منعقد ہوئی۔ مصری حکومت ان تقریبات سے مصر میں سیاحت کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یورپ میں برطانوی دارالحکومت لندن میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد دریائے ٹیمز کے کنارے جمع ہوئے اور آتش بازی کے ساتھ نئے سال کا استقبال کیا۔
ہمیں باہمی اختلافات ختم کرنا چاہئے : پوپ فرانسس کا پیغام
ویٹکن سٹی ۔ یکم ؍ جنوری (سیاست ڈاٹ کام) پوپ فرانسس نے نئے سال 2016ء کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اکیسویں صدی بھی اب 16 سال کی ہوگئی ہے اور اب ضرورت اس بات کی ہیکہ دنیا بھر کی تمام قومیں اپنے باہمی اختلافات کو ختم کردیں اور جہاں تک ناانصافی، جنگ و جدال اور دنیا میں پھیلی ہوئی غربت کا سوال ہے ان کے خاتمہ کیلئے حقیقت پسند بن جائے اور مصنوعی جانبداری ترک کردیجئے۔ سینٹ پیٹرس بسیلیکا میں نئے سال کے دعائیہ اجتماع میں ایک جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ طاقتور کمزور کو دبا رہا ہے اور کئی واقعات تو ایسے بھی جہاں کمزوروں کو حاشیہ بردار کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کئی ممالک جنگ زدہ ہیں جہاں کے ماحول سے راہ فرار اختیار کرنے والے مرد و خواتین اور بچے اپنی زندگیوں کو خطرہ میں ڈالتے ہوئے یوروپی ممالک کا رخ کررہے ہیں۔ انہوں نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ ہمیں مصنوعی غیرجانبداری ترک کرتے ہوئے حقیقت پسند بن جانا چاہئے کیونکہ مصنوعی غیرجانبداری سے دوسروں کے غم بانٹنے سے ہم محروم رہ جاتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ آخر بنی نوع انسان آخر کب تک تشدد اور نفرت کا بیج بوتا رہے گا۔