شفیق ایک نٹ کھٹ بچہ ہے۔ شرارت اسے خوب سوجھتی ہے۔ نت نئی حرکت کرتا ہے۔ایک دن کی بات ہے بچوں کی ٹولی کے ساتھ کہیں کھیلنے جارہا تھا۔ راہ میں ایک دیوار ملی۔ دیوار میں ایک چھید تھا۔ چھید میں بھڑوں کا چھتہ تھا۔ شفیق کو شرارت سوجھی۔ اس نے ایک ڈھیلا اُٹھایا اور چھتے پر دے مارا۔ بچے بھاگے شفیق بھی ان کے ساتھ بھاگا۔
خیر اس دن سب بچ گئے۔ بھڑوں نے کچھ دور پیچھا کیا، پھر واپس لوٹ گئیں۔ ایک دن ان سب کا گزر پھر اسی چھتے کے پاس سے ہوا۔ سب بچ بچاکر جانے لگے۔ شفیق بولا: ’’تم لوگ بڑے بزدل ہو، بھڑوں سے ڈرتے ہو‘‘۔ایک نے کہا کہ بھڑوں کا چھتہ چھیڑنا یا سانپ کے بل میں ہاتھ ڈالنا، یہ کہاں کی بہادری ہے۔ یہ تو نادانی ہے۔ بہادری کھیل کے میدان یا اکھاڑے میں دکھائی جاتی ہے۔ شفیق بھلا کب مانتا، وہ تو چھتہ چھیڑنا بہادری سمجھتا تھا۔ لکڑی کا ایک ٹکڑا لیا اور چھتے میں ڈال کر خوب چھیڑا۔ بچے دُور سے کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ بہت سی بھڑیں چھتے سے نکل کر شفیق کو چمٹ گئیں۔ چہرے اور سر پر خوب خوب ڈنک مارے۔ شفیق روتا چلاّتا بھاگا۔ کچھ دیر بعد اس کا چہرہ سوج کر کُپا ہوگیا۔ بچے چڑانے لگے۔ شفیق بھائی، گال میں کتنے لڈو بھر رکھے ہیں‘‘۔شفیق کی اب یہی چڑ ہوگئی۔ جب چھتہ ملتا ہے تو بچے کہتے ہیں۔ ’’شفیق بھائی! ذرا بہادری کے کرتب دکھاؤ‘‘۔ شفیق شرما جاتا۔ اس دن سے شفیق نے پھر کبھی چھتہ نہ چھیڑا۔