تل ابیب۔ 26 فبروری ۔ ( سیاست ڈاٹ کام ) جرمن چانسلر میرکل نے اسرائیل کی طرف سے متنازعہ علاقوں میں جاری یہودی آبادی کاری کے عمل پر ’سخت تحفظات ‘کا اظہار کیا ہے جبکہ دونوں ممالک کے مابین ایران کے جوہری پروگرام پر جاری عالمی مذاکرات پر بھی اختلافات دیکھے گئے ہیں۔ اسرائیل اور جرمنی کی کابینہ کے مشترکہ اجلاس کے بعد منگل کو جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا، ’’ہم آباد کاری کے معاملے کو انتہائی تشویش کے ساتھ دیکھ رہے ہیں‘‘۔ میرکل کا اصرار تھا کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے قیام کیلئے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہئے اور دو مملکتی حل کی طرف آگے بڑھنا چاہیے۔ اس تنقید کے باوجود میرکل نے ایسی تمام تر تجاویز کی مخالفت کی کہ اگر تل ابیب حکومت متنازعہ علاقوں میں نئے مکانات کی تعمیر کا عمل جاری رکھتی ہے تو اس کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔ یروشلم میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے میرکل نے مزید کہا، ’’ہم امید رکھتے ہیں کہ (آباد کاری کا) یہ معاملہ دو مملکتیحل کی راہ میں رکاوٹ کھڑی نہیں کرے گا‘‘۔
یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ برس جب سے اسرائیلی اور فلسطینی رہنماؤں کے مابین مشرق وسطیٰ امن مذاکرات بحال ہوئے ہیں، اس کے بعد سے اسرائیلی حکومت متنازعہ علاقوں میں گیارہ ہزار 700 نئے مکانات تعمیر کرنے کی منظوری دے چکی ہے۔ اس وجہ سے نہ صرف فلسطینی رہنماؤں نے اسرائیلی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے بلکہ واشنگٹن حکومت سمیت متعدد دیگر مغربی ممالک نے بھی سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ عالمی برادری کے خیال میں یہودی آباد کاری امن مذاکرات کو سبوتاج کر سکتی ہے جبکہ نیتن یاہو کا خیال ہے کہ یہ کوئی بڑا معاملہ نہیں ہے۔ اس اختلاف کے باعث فلسطینی رہنماؤں نے امن مذاکرات کا بائیکاٹ بھی کیا تھا تاہم امریکی ثالثی سے یہ مذاکرات تقریباً تین سال کے تعطل کے بعد بحال ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق اسرائیل کی طرف سے یہ نئے آباد کاری غیر قانونی قرار دی جاتی ہے۔ پریس کانفرنس کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے والے مشرق وسطیٰ امن مذاکرات کی معطلی چاہتے ہیں۔