یکم دسمبر ملازمین کے لیے یادگار تاریخ

10 ہزار کے بجائے 5 تا 6 ہزار روپیوں کی ادائیگی ، ملازمین ، وظیفہ یاب طبقہ پریشان حال
حیدرآباد۔یکم۔ڈسمبر (سیاست نیوز) 2016کے آخری مہینے ڈسمبر کی پہلی ملازمت کرنے والے طبقہ کی زندگی کی یادگار پہلی تاریخ بن گئی ہے اور زندگی کے کسی حصہ میں اس پہلی کی پہیلی کو سلجھا نہیں پائیں گے۔ ملک میں مرکزی و ریاستی حکومتوں نے سرکاری ملازمین اور وظیفہ یابان کو اس بات کی طمانیت دی تھی کہ انہیں پہلی تاریخ کو خصوصی کاؤنٹر کے ذریعہ 10000روپئے نقد ادا کئے جائیں گے لیکن حکومتوں کا یہ تیقن انتخابی وعدہ ثابت ہوا کیونکہ کئی گھنٹے قطار میں کھڑے ہونے کے بعد ملازمین کو 5000 یا 6000 روپئے حاصل ہوئے یا پھر انہیں مایوس لوٹنا پڑا۔اسی طرح وظیفہ یاب ضعیف حضرات کو بھی کئی مقامات پر پریشانی کی حالت میں دیکھا گیا جو حکومت کے وعدے کے مطابق 10000روپئے کے حصول کی امید میں بینک کے باہر قطار میں کھڑے تھے لیکن اندرون دو گھنٹے بینکوں کے ذمہ داران نے نقد رقومات ختم ہونے کا اعلان کرتے ہوئے قطار میں کھڑے ملازمین و وظیفہ یابان اور تاجرین کو واپس روانہ کردیا۔ شہر کے مختلف مقامات پر آج بینکوں میں نقد رقم نہ ہونے کا اعلان کئے جانے پر عوام میں شدید برہمی دیکھی گئی اور کوکٹ پلی‘ حیات نگر کے علاوہ بارکس حافظ بابا نگر میں عوام نے بینکوں کے روبرو زبردست احتجاج کیا اور راستہ روک دیا۔ اس کے علاوہ کئی علاقوں میں بینکوں کی جانب سے پولیس کو طلب کرتے ہوئے عوام کو واپس ہونے کیلئے مجبور کیا گیا۔ دونوں شہروں کے80فیصد سے زیادہ اے ٹی ایم مراکز آج بھی غیر کارکرد رہے جس کی وجہ سے تنخواہ حاصل کرنے والے ملازمین کو بھی تنخواہ نکالنے میں دشواریاں پیش آرہی تھیں۔ پرانے شہر کے بیشتر اے ٹی ایم غیر کارکرد رہے جس کی وجہ سے پرانے شہر سے تعلق رکھنے والے عوام کو اے ٹی ایم کے ذریعہ پیسے نکالنے کی سہولت بھی میسر نہیں آئی جس کی وجہ سے انہیں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مہینے کی پہلی تاریخ ہونے کے سبب بینکوں کے روبرو صبح کی اولین ساعتوں سے ہی قطاریں لگی ہوئی تھیں اور بعض اے ٹی ایم مراکز پر گذشتہ شب ہی طویل قطاریں دیکھی گئی۔ بینک کی قطار میں وظیفہ اور تنخواہ کی آس میں کھڑے لوگوں کے درمیان دیگر شہری بھی آج بینک ملازمین پر برس پڑے ۔ آندھرا بینک کی شمشیر گنج شاخ کے منیجر اور دیگر عمل پر وظیفہ یابان نے سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس بینک کے عہدیداروں نے مخصوص گروپ کی مدد کی جبکہ خواتین اور وظیفہ یابان نے بینک منیجر کے پیر پکڑ کر حکومت کے معلنہ 10000روپئے جاری کرنے کی درخواست کررہے تھے لیکن ان کی ایک نہیں سنی گئی۔اسی طرح ایچ ڈی ایف سی بینک کی سوماجی گوڑہ شاخ کو آج 25لاکھ روپئے حاصل ہوئے لیکن ان 25لاکھ کو وہ کس طرح تقسیم کریں ان کی سمجھ سے قاصر نظرآرہا تھا کیونکہ بینک کے ذمہ دار کرنٹ اکاؤنٹ رکھنے والے 50تاجرین کو ہی یہ رقم جاری کرسکتے تھے لیکن انہیں تنخواہوں کی ادائیگی کے علاوہ وظیفہ یابان کو بھی اسی میں سے 10000روپئے جاری کرنے تھے۔اس بینک میں اندرون دو گھنٹے نقدی ختم کا اعلان کرتے ہوئے بینک کو مقفل کردیا گیا۔اسٹیٹ بینک آف حیدرآباد کوکٹ پلی شاخ پر نقدی ختم کے اعلان کے ساتھ ہی عوام نے شدید احتجاج شروع کردیا اور اطلاعات کے بموجب بینک میں ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے توڑ پھوڑ بھی کی گئی لیکن اس سلسلہ میں بینک کی جانب سے کوئی شکایت نہیں کروائی گئی۔اسٹیٹ بینک آف انڈیا بارکس شاخ کے روبرو خواتین نے زبردست ہنگامہ کرتے ہوئے راستہ روکو احتجاج منظم کیا اور بینک عمل کے رویہ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے منتخبہ عوامی نمائندوں کی خاموشی پر برہمی کا اظہار کیا۔بینک کی قطار میں کھڑے لوگوں نے آج اپنے نمائندوں کے علاوہ ریاست کے وزراء سے بھی رابطہ قائم کرتے ہوئے اس بات کی شکایت کی کہ بینکوں میں نقدی نہ ہونے کی اطلاع دیتے ہوئے بینک بند کئے جا رہے ہیں لیکن وزراء اور منتخبہ عوامی نمائندے بھی کوئی جواب دینے سے قاصر رہے۔ قطاروں میں کھڑے ملازمین اور وظیفہ یابان نے عوام کو درپیش ان مشکلات میں سیاسی قائدین کی خاموشی کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ سب اپنا کالا دھن بچانے کیلئے وزیر اعظم کے آمرانہ رویہ کے خلاف خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور اپنی دولت بچانے کی کوشش میں مصروف ہے۔بینکوں سے مایوس لوٹنے والوں نے سیاستدانوں کی بے حسی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اپنے حقیر مفادات کیلئے سڑکوں پر اترنے اور نوجوانوں کوورغلاتے ہوئے ان کی زندگیاں تباہ کرنے والے سپریم کورٹ کی جانب سے عوامی بغاوت اور ہنگامہ آرائی کا انتباہ دیئے جانے کے باوجود خاموش ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ جب تک حقیر سیاسی مفادات نہیں ہوتے سیاسی قائدین سڑکوں پر نہیں آتے بلکہ عوامی مسائل پر صرف بیان بازی کی سیاست کی جاتی ہے تاکہ عوام کو ایسا محسوس ہو کہ وہ ان حالات پر شدید تکلیف سے دو چار ہیں۔