ناقابل عمل مسئلہ کیلئے مسلمان پریشان نہ ہوں، پروفیسر طاہر محمود کا مشورہ
نئی دہلی 6 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) مرکزی وزیر قانون کی حیثیت سے جائزہ حاصل کرنے کے بعد مسٹر روی شنکر پرساد نے آج کہا ہے کہ ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے مسئلہ کو لاء کمیشن سے رجوع کرنے سے متلق حکومت کے فیصلہ کو اترپردیش اسمبلی انتخابات سے جوڑا نہیں جانا چاہئے جہاں پر آئندہ سال انتخابات منعقد ہوں گے۔ انھوں نے کہاکہ اس مسئلہ کو انتخابات سے نہ جوڑا جائے۔ اتراکھنڈ میں بھی انتخابات منعقد ہوں گے۔ جبکہ حقیقت یہ ہیکہ دستور کی دفعہ 44 میں یکساں سیول کوڈ کا تذکرہ ہے اور مختلف مواقع پر سپریم کورٹ نے بھی یونیفارم کوڈ کی ضرورت کو اُجاگر کیا ہے اور یہ ہمارے (بی جے پی) انتخابی منشور کا ایک وعدہ بھی ہے۔ انھوں نے کہاکہ اس مسئلہ پر قطعی فیصلہ سے قبل وسیع تر مشاورت کی ضرورت ہے اور لاء کمیشن سے کہا گیا ہے کہ مشاورت اور مذاکرات شروع کردیئے جائیں۔ واضح رہے کہ محکمہ قانونی اُمور نے گزشتہ ماہ لاء کمیشن کو ہدایت دی تھی کہ یکساں کوڈ کے مسئلہ پر ایک رپورٹ پیش کی جائے جوکہ بی جے پی اور سنگھ پریوار کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ لیکن مجلس مجلس اور دیگر تنظیمیں یکساں سیول کوڈ کی شد و مد سے مخالفت کررہے ہیں۔ دریں اثنائلاء کمیشن آف انڈیا کے سابق رکن پروفیسر طاہر محمود نے کہا ہے کہ 1955 میں قائم کردہ اس کمیشن نے گذشتہ 61برسوں میں یکساں سول کوڈ کے موضوع پر حکومت کو کبھی کوئی رپورٹ پیش نہیں کی۔
پروفیسر محمود نے کمیشن کے سابق چیئر مین جسٹس اے آر لکشمنن کے حوالے سے عام کی جانے والی اس خبرسے اختلاف کیا کہ ان کے دور صدارت میں کمیشن نے اس موضوع پر کانگریس کی حکومت کو دو رپورٹیں پیش کی تھیں جن پر اس نے کوئی کاروائی نہیں کی۔انہوں نے کہا کہ نہ تو یکساں سول کوڈ کے موضوع پر کبھی کوئی رپورٹ پیش کی گئی ہے نہ ہی کسی بھی حکومت نے کمیشن سے کبھی ایسی کوئی رپورٹ طلب کی۔ واضح رہے کہ ایک انگریزی روزنامے میں اسی ہفتے جسٹس اے آر لکشمنن کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ان کے دور صدارت میں کمیشن نے اس موضوع پر کانگریس گورنمنٹ کو دو رپورٹیں پیش کی تھیں۔پروفیسر محمود نے جو جسٹس لکشمنن کی صدارت والے اٹھارویں لاء کمیشن کے واحد کل وقتی رکن تھے ، واضح کیا ہے کہ اخبار کی خبر میں کمیشن کی جن دو رپورٹوں کا ذکرہے وہ دونوں رپورٹیں خود ان کی تیار کردہ تھیں لیکن ان میں سے کسی کا تعلق یونیفارم سول کوڈ کے معاملے سے مطلق نہیں تھا۔انہوں نے اس سلسلے میں یہ کہتے ہوئے کہ حکومتیں اکثر ایسے مشکل معاملات کو جن پر کوئی کاروائی کرنا حکومتوں لئے عملی طور پرممکن نہیں ہوتا محض ٹالنے کیلئے کسی نہ کسی کمیشن کے سپرد کرکے اپنا دامن جھاڑ لیتی ہیں، یہ استدلال کیا کہ موجودہ حکومت نے بھی یونیفارم سول کوڈ کے معاملہ کو سیاسی اغراض سے لاء کمیشن کے سپرد کرکے ایسا ہی کیا ہے جس پر اقلیتوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔