یو پی کسان تنظیموں کا دہلی میں داخلہ، جنتر منتر پر احتجاج

زرعی قرضوں کی معافی کا مرکز سے مطالبہ ، 10 روزہ مارچ کا اختتام
نئی دہلی۔3 اکٹوبر (سیاست ڈاٹ کام) اترپردیش کے ہزاروں کسانوں نے دہلی۔ نوئیڈا سرحد پر بشمول زرعی قرضوں کی معافی، کسانوں کو وظائف، ایندھن کی قیمتوں میں کمی اپنے مختلف مطالبات اٹھانے کے بعد آج دوپہر قومی دارالحکومت نئی دہلی کے مرکزی مقام جنترمنتر پر احتجاج کیا۔ بھارت کسان یونین (بی کے یو) کی طرف سے ہزاروں کسانوں کے احتجاج کسان کرانتی یاترا کے یمنا کنارے کسان گھاٹ پر کامیاب اختتام کے چھ گھنٹے بعد یہ پیشرفت ہوئی۔ دہلی کے ایک سینئر پولیس عہدیدار نے کہا کہ 200 کسانوں نے جنترمنتر پر احتجاج کیا۔ ہردوار کے ٹکیٹ گھاٹ سے 10 روزہ مارچ شروع کرنے والے ان کسانوں نے متھرا کے بھارتیہ کسان یونین (بھانو) کے پرچم تلے نوئیڈا میں داخلہ کے راستہ میٹور وہار پر احتجاج کے بعد آج دوپہر دہلی میں مظاہرہ کیا۔ بی کے یو میں اس کے سربراہ اور مقبول عام قائد مہندر سنگھ ٹکیت کے 2011میں انتقال کے بعد پھوٹ پڑ گئی تھی۔ ان کے چار کے منجملہ سب سے بڑے فرزند نریش سنگھ کھیت جنہوں نے رواں کسان کرانتی یاترا کی قیادت کی ہے۔ 2011ء میں اپنے آنجہانی والد کے جانشین کی حیثیت سے بی کے ی و کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ بی کے یو کے نائب صدر عجب سنگھ نے کہا کہ ’’ہم مرکز کی کسان مخالف پالیسیوں کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔‘‘ قبل ازیں پولیس نے کسانوں کو قومی دارالحکومت میں داخلہ کی اجازت دے دی اور انہیں کرانتی پدیاترا کو روکنے کیلئے لڑکیوں پر نصب شدہ رکاوٹوں کو منگل کی آدھی رات بعد ہٹا دیا تھا۔ کسان کرانتی پدیاترا دہلی پہنچنے کیلئے ہردوار سے شروع کی گئی تھی۔ کسانوں کی کثیر تعداد اپنے ٹریکٹرس اور ٹرالیاں چلاتی ہوئی قومی دارالحکومت پہنچی تھی بعدازاں کشن گھاٹ کی طرف آگے بڑھ گئی جہاں بھاری پولیس تعینات کی گئی ہے۔ دہلی مارچ کے لئے ہزاروں کسان گذشتہ روز روانہ ہوئے تھے۔ ان کے اہم مطالبات میں زرعی قرضوں کی معافی اور ایندھن کی قیمتوں میں کمی بھی شامل ہے۔ انہوں نے اپنے جلوس کے دوران قومی دارالحکومت پہنچنے والے تمام راستوں پر ٹریفک نقل و حرکت کی ناکہ بندی کردی تھی۔ قومی شاہراہوں پر گونڈا، بستی اور گورکھپور سے پہنچنے والے کسانوں کی کثیر تعداد جلوس کی شکل میں آگے بڑھ رہی تھی۔ کسان کی کرانتی یاترا ہردوار کے ٹکیت گھاٹ سے 23 ستمبر کو شروع ہوئی تھی جس کے راستوں میں اترپردیش کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے کسان شامل ہوگئے تھے۔