یو پی پر سیاسی جماعتوں کی نظریں

آتے ہیں جس شجر پہ زیادہ ثمر جناب
پتھر بھی اتنے زیادہ ہی اس کا نصیب ہیں
یو پی پر سیاسی جماعتوں کی نظریں
اتر پردیش کو ملک کے سیاسی حلقوں میں انتہائی اہمیت حاصل ہے ۔ اتر پردیش ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے اور یہیں سے لوک سبھا کیلئے سب سے زیادہ ارکان منتخب کرکے روانہ کئے جاتے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت چاہتی ہے کہ اس ریاست میں اپنا دبدبہ قائم کیا جائے کیونکہ سیاسی اعتبار سے لکھنو سے نئی دہلی تک کا سفر زیادہ قریب سمجھا جاتا ہے ۔ جو جماعت یو پی میں زیادہ اثر انداز ہوسکتی وہی جماعت دہلی میں اپنا زیادہ غلبہ حاصل کرپاتی ہے ۔ گذشتہ کچھ عرصہ سے یو پی میں مقامی اور علاقائی جماعتوں کو اہمیت حاصل ہوگئی ہے ۔ ایک عرصہ تک اتر پردیش پر کانگریس کا راج رہا جس کے بعد جنتادل کے قیام کے بعد وہاں کانگریس کا اقتدار ختم ہوگیا ۔ پھر کچھ وقت کیلئے بی جے پی نے اتر پردیش میں اقتدار حاصل کیا ۔ جس وقت ریاست میں کانگریس کو اقتدار حاصل تھا اس وقت دہلی کے تخت پر بھی کانگریس براجمان تھی ۔ جب جنتادل نے یو پی میں کامیابی حاصل کی اس وقت مرکز میں جنتادل کی زیر قیادت قومی محاذ نے حکومت بنائی تھی ۔ جب بی جے پی نے اتر پردیش کے رائے دہندوں کو رجھانے میں کامیابی حاصل کی تو دہلی کے تخت پر بھی اس کا اپنا قبضہ ہوگیا تھا ۔ اٹل بہاری واجپائی نے لکھنو سے کامیابی حاصل کرکے دہلی میں حکومت بنائی تھی ۔ پھر وہاں سماجوادی ۔ بی ایس پی اتحاد ہوا اور اس اتحاد کی تائید والی حکومت ہی دہلی میں قائم ہوئی ۔ پھر دھیرے دھیرے حالات میں تبدیلی آتی گئی اور سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی میں دوریاں ہوگئیں اور ہر جماعت اپنے اپنے طور پر وہاں حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئی ۔ اب ملائم سنگھ یادو اسی حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ریاست میں زیادہ سے زیادہ لوک سبھا نشستوں پر کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ دہلی کی گدی پر براجمان ہونے کی ان کی خواہش پوری ہوسکے ۔

اسی خواہش کو عملی جامہ پہنانے انہوں نے لکھنو کی گدی اپنے فرزند اکھیلیش یادو کے سپرد کردی تھی ۔ تاہم حکومت بنانے کے بعد یوپی میں سماجوادی پارٹی کی مقبولیت بڑھنے کی بجائے گھٹتی نظر آرہی ہے اور دوسری جماعتیں بھی اسی ریاست پر نظر لگائے بیٹھی ہیں ۔ بی جے پی نے اتر پردیش کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے نریندر مودی کا راستہ صاف کرنے ان کے دست راست سمجھے جانے والے امیت شاہ کو وہاں ذمہ داری سونپی ہے اور ان کے ذمہ داری سنبھالنے کے ساتھ ہی مظفرنگر کو فرقہ وارانہ فسادات کی آگ میں جھونک کر سیاست شروع کردی گئی ۔ کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی کو بھی یو پی کی اہمیت کا اندازہ ہے اسی لئے وہ بھی اسی ریاست میں زیادہ وقت دیتے ہوئے وہاں پارٹی کے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرنے کی کوشش میں جٹ گئے ہیں۔ ماضی میں یہاں راہول کو قدرے کامیابی ضرور ملی تھی لیکن اب ان کیلئے بھی حالات مشکل ہوتے جا رہے ہیں۔ بہوجن سماج پارٹی خاموشی سے اپنے ووٹ بینک کو مستحکم کرنے میں جٹی ہوئی ہے ۔ نئی قائم کردہ عام آدمی پارٹی بھی اس ریاست میں اپنی قسمت آزمائی کا فیصلہ کرچکی ہے ۔ عام آدمی پارٹی نے راہول گاندھی کے حلقے امیٹھی سے کمار وشواس کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کرتے ہوئے انہیں مہم شروع کرنے کی اجازت دیدی ہے ۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال بھی اتر پردیش میں وارناسی حلقہ سے نریندر مودی کے خلاف مقابلہ کرسکتے ہیں۔ نریندر مودی بھی یو پی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے چونکہ وزارت عظمی امیدوار ہیں اس لئے لوک سبھا کیلئے وارناسی سے مقابلہ کرسکتے ہیں اور اس کیلئے عام آدمی پارٹی سربراہ نے خود مقابلہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے ۔ ان تمام سیاسی جماعتوں کی محاذ آرائی کے درمیان ریاست کے عوام پر ایک غیر معمولی ذمہ داری عائد ہوتی جا رہی ہے ۔ اتر پردیش کے رائے دہندوں نے وقفہ وقفہ سے سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک دوسرے کو ترجیح دیتے ہوئے اپنی رائے کی اہمیت منوائی ہے ۔ خاص طور پر یو پی کے مسلمانوں نے مسائل کی بنیاد پر ایک جٹ ہوکر کبھی بہوجن سماج پارٹی اور کبھی سماجوادی پارٹی کو ووٹ دیا ہے ۔

ریاست کے رائے دہندے کسی بھی قیمت پر بی جے پی کو ووٹ نہیں دے سکتے ۔ اب جبکہ کئی جماعتوں کے مابین محاذ آرائی ہونے والی ہے تو ریاست کے رائے دہندوں اور خاص طور پر مسلمان رائے دہندوں کو انتہائی شعور کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ مختلف جماعتوں کے مابین اگر ان کے ووٹ تقسیم ہوجائیں تو مودی کی قیادت میں فرقہ پرستوںکو اپنا موقف مستحکم کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔ ریاست کے رائے دہندوں کو تمام حالات اور اس بات انتخابات اور اس کے نتیجہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے انتہائی سمجھداری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ نہ ان کے ووٹ تقسیم ہونے پائیں اور نہ فرقہ پرستوں کو مستحکم ہونے کا موقع ملے۔