یو پی اے کی اسکیمات اور مسلمان

دلوں کو توڑ گیا اب تو دوستی کا بھرم
یہی ہے ریت یہاں دوستی نبھانے کی
یو پی اے کی اسکیمات اور مسلمان
عام انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں کے بعض مکاتب فکر کے حامی افراد میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ اپنے اپنے فلسفہ پیش کرکے کبھی فرقہ پرستوں اور کبھی نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو معطون کرتے رہے ہیں۔ کسی کو بھی اپنے موضوع پر گرفت ہے نہ ہی مسائل کا صحیح ادراک ہے۔ عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال نے میڈیا پر تنقید کی ہے۔ حکومت کی پالیسیوں پر انگلی اُٹھ رہی ہے۔ ایسی ہی ایک تنقیدی جائزہ والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یو پی اے کی پالیسیوں سے ہندوستانی مسلمانوں کو خاص فائدہ نہیں ہوا ہے۔ کانگریس زیرقیادت یو پی اے نے راجندر سچر کمیٹی سفارشات پر عمل آوری کرتے ہوئے چند ایسی پالیسیاں وضع کی تھیں جس سے ہندوستانی مسلمانوں کو فائدہ ہوجائے۔ اپنی بنائی گئی پالیسیوں اور اس کی عمل آوری سے مسلمانوں کو کس حد تک فائدہ پہونچا ہے، اس کا جائزہ لینے کے لئے ایک پیانل بنایا گیا تھا۔ اس پیانل نے انتخابات سے قبل اپنی عبوری رپورٹ پیش کرتے ہوئے دل دُکھانے والی سچائی بیان کی ہے کہ یو پی اے کی پالیسیوں سے مسلمانوں کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا ہے۔ اگر مسلم معاشرہ اسی راہ پر چلے تو اس کی حالت پر رونا اور ترس کھانے کے لئے سیاستدانوں کو انسانی دل رکھنا ضروری ہوجائے گا۔ یو پی اے کی پالیسیوں سے ظاہر ہوچکا ہے کہ اس نے انسانی دل کے بغیر سیاسی مقاصد کو ملحوظ رکھ کر پالیسیاں وضع کی اور اس پر عمل آوری کے لئے نیم دلانہ مظاہرہ کیا۔ پیانل کی قیادت جواہرلال نہرو یونیورسٹی اسکول آف سوشیل سائنس کے سابق پروفیسر اور ڈین امیتابھ کندو نے کی ہے جس کے دیگر ارکان میں پی سی موہنن، عامر اللہ خاں، پی اے انعامدار، منظور عالم، جمیل انی، علی احمد خاں اور عبدالسبحان شامل ہیں۔ رپورٹ کی سچائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی روزگار صورتحال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہاں تک کہ عوامی روزگار پروگرام میں بھی مسلمانوں کو بہت ہی کم حصہ ملا ہے۔ حکومت نے پالیسیاں وضع کرنے کے ساتھ ان پر نیک نیتی سے عملی مظاہرہ نہیں کیا۔ بے روزگار مسلم نوجوانوں کی مدد کرنے کے لئے کوئی ادارہ جاتی تائید فراہم نہیں کی گئی۔ سرکاری ملازمتوں میں بھی مسلمانوں کی جملہ آبادی کا بہت کم حصہ ملا ہے۔ مسلمانوں کے لئے تیار کردہ یو پی اے کی تمام پالیسیاں اور اسکیمات فلاپ ہوچکی ہیں۔ کانگریس نے ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کو ووٹ بینک بنایا اور وعدے و نظریہ پیش کرکے منصوبوں کی کاغذی کارروائی کو زبردست تشہیر کرکے گمراہ کیا۔ اسکول میں مسلم بچوں کی کم حاضری یا ترک تعلیم کرنے والے مسلم بچوں کی شرح پسماندہ طبقات کی شرح سے زیادہ بدتر ہے۔ مسلم لڑکیوں کی تعلیم ترک کرنے کی شرح بھی افسوسناک ہے۔ 13 سال کی عمر تک پہونچتے ہی مسلم لڑکیاں تعلیم ترک کردیتی ہیں۔ مسلم بچے لیبر مارکٹ کا رُخ کرتے ہیں تو لڑکیاں گھروں کی دار دیواری میں مقید ہوجاتی ہیں۔ مسلمانوں کو ہمیشہ ہی سے روزگار اور تعلیم جیسے دو اہم چیالنجس کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے حکومت کی نیک دلی ضروری ہے۔ مسلم بچوں کو فنی اور تعلیمی سہولتوں کی فراہمی میں دانستہ کوتاہی کی جارہی ہے۔ ہر شعبہ میں امتیازی سلوک کی لعنت ختم نہیں ہوئی۔ سچر کمیٹی بنانے والی پارٹی کانگریس ہی تھی اور اس کی سفارشات پر عمل کرنے کا مظاہرہ بھی اس نے کیا۔

اب پیانل کے ذریعہ رپورٹ تیار کی گئی تو کانگریس کا یہ فریضہ تھا کہ سچر کمیٹی کی سفارشات پر دیانت داری سے عمل کرتی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا جس کے نتیجہ میں اسے عام انتخابات میں مسلم ووٹوں سے محروم ہونا پڑے گا۔ بی جے پی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی سے سخت مقابلہ ہونے کے باوجود کانگریس اپنی حکومت کی کارکردگی کو موافق مسلم بنانے میں ناکام رہی۔ اس حکومت کے قیام کے اوّلین دور یعنی یو پی اے مرحلہ اول کے حالات پر ایک نظر ڈالیں اور آج کی صورتحال دیکھیں تو بہت واضح فرق نظر آئے گا۔ مثلاً معیشت کی بحالی کے حوالے سے مسلمانوں کی حالت زار کو پیانل نے افسوسناک قرار دیا ہے۔ اگر سیاسی پارٹیوں میں خاص کر کانگریس جیسی قومی جماعت میں شریف النفس لیڈر کا فقدان ہو تو پھر یہ توقع فضول ثابت ہوگی کہ آنے والے دنوں میں مسلمانوں کا کچھ بھلا ہوگا۔ آئندہ حکومت بنانے والوں کی پالیسیاں مسلمانوں کے حق میں کیسی ہوسکتی ہیں۔ اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ ملک ایسے حکمرانوں کے قبضے میں چلا جائے گا جن کی عقل سلیم زعفرانی رنگ سے بھری ہوئی ہے۔ تعصب اور نفرت کے زہر سے آلودہ سوچ انسانی جذبوں یس بڑی حد تک عاری بھی ہوتی ہے۔ بی جے پی نے دولت، پروپگنڈہ اور ذات پات کی طاقت سے انتخابات جیتنے کی جارحانہ کوشش شروع کی ہے۔ میڈیا کو زرخرید غلام بنانے کی کوشش کرتے ہوئے عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ عشروں کے تجربات نے مسلمانوں کے سامنے یہ سچائی واضح ہونی چاہئے کہ سیاستدانوں کا وعدہ کبھی وفا نہیں ہوا ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ جن المناک واقعات کو رونما کیا گیا اب وہی طاقتیں پورے ملک کا اقتدار سنبھالنے کی تیاری کررہی ہیں۔ تو یہ مسلمانوں کے لئے لمحہ فکر ہے۔ نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں کے ساتھ جس طرح کا سیاسی کھیل کھیلا ہے، سچر کمیٹی کی سفارشات اور پیانل کی رپورٹ کے ذریعہ حکمرانوں کی بے حسی، بد انتظامی کی ایک انتہائی خوفناک و افسوسناک تصویر سامنے آتی ہے۔ مسلمانوں میں غربت کا خاتمہ، معاشی و تعلیمی پسماندگی کو دور کرکے خوشحالی کا حقیقی رنگ پیدا کرنے کے لئے جس اعلیٰ درجہ کا نظم و نسق درکار ہے وہ فی الحال کسی بھی پارٹی کے منشور میں نظر نہیں آتا۔ اس لئے مسلمانوں کو حکمراں پارٹی کی بے عملی اور بے فکری اسکیمات سے چوکنا رہ کر اپنے حق ووٹ سے استفادہ کرنا ہوگا۔ آج مسلمان ایک ایسے ہندوستان کو دیکھ رہے ہیں جو جمہوری پارلیمانی نظام کے منفی اثرات کی زد پر ہے۔ تمام اوپینین پول اور انتخابی سروے رپورٹ میں فرقہ پرستوں کو اقتدار تک لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

خراب حکمرانی کے معاشی اثرات
ہندوستانی معیشت کے بارے میں حال ہی میں ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ بہت مشکل دور سے گذر رہی ہے۔ اس کو بہتر بنانے کے لئے ایک شاندار معاشی ڈھانچہ تیار کرنے کی ضرورت ہے لیکن حالیہ تجربات کی روشنی میں ماہرین معاشیات نے حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی ہے اور کہاکہ معاشی ڈھانچہ تیار کنرے کے لئے یہ وقت ٹھیک نہیں ہے کیونکہ افراط زر خاص کر غذائی افراط زر نے ہر شہری کے گھریلو توقعات پر ضرب لگائی ہے۔ وزیر فینانس پی چدمبرم کے مالیاتی سخت اقدامات اور آر بی آئی کے ٹھوس شرح پالیسیوں کے باوجود گزشتہ چند برسوں میں افراط زر پر معمولی اثر پڑا ہے۔ اس لئے یہ بحث شدت اختیار کرچکی ہے کہ حکومت کو یہ جائزہ لینا ضروری ہوگیا ہے کہ آخر اس کے معاشی و مالیاتی اقدامات میں سے کونسا کام کارگر ثابت نہیں ہواہے۔ مالی بدنظمی نے ملک کی پیداوار شرح پر بھی اثر ڈال دیا ہے۔ ڈال کے مقابل روپئے کی قدر گھٹنے سے بھی دو ہندسی افراط زر کی برقراری نے معاشی صورتحال کو سنگین تر کردیا ہے۔