اب تو شہروں میں بھی انسان لہو پیتا ہے
صرف جنگل میں ہی خونخوار کہاں ہوتے ہیں
یوگی حکومت کی بے حسی پر سوال
اترپردیش میں آدتیہ ناتھ کی قیادت والی حکومت نے جس سے ذمہ داری سنبھالی ہے وہاں لا قانونیت کا عروج ہے ۔ اب تک ایسے بے شمار واقعات پیش آچکے ہیں جن کے نتیجہ میں قانون کی بالادستی متاثر ہوئی ہے ۔ بے قصور افراد کو نشانہ بناتے ہوئے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے ۔ گائے کے تحفظ کے نام انسانوں کو قتل کردیا گیا ہے اور ایسے سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والے مجرم نہ صرف کھلے عام گھوم رہے ہیں بلکہ وہ مزید دوسروں کو دھمکا رہے ہیں اور انہیں کچھ گوشوں کی جانب سے شاباشی بھی دی جا رہی ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ پولیس کے جوان کسی بے قصور کو اپنی مرضی سے گولی مار دیتے ہیں تو کسی پولیس عہدیدار کو گئو رکھشک محض اپنے کام میں رکاوٹ پیدا کرنے کی پاداش میں موت کی نیند سلادیتے ہیں۔ ان سارے واقعات پر آدتیہ ناتھ کی حکومت خاموشی اختیار کرتے ہوئے ان عناصر کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور ملک بھر میں اپنے 56 انچ کا سینہ ٹھوک کر تقاریر کرنے والے نریندرمودی بھی اس پر خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ملک کے کچھ سابق بیوروکریٹس نے اپنی ذمہ داری محسوس کی کہ ارباب مجاز کو خواب غفلت سے جگانے کی کوشش کی جائے یا پھر اگر وہ جاگ رہی ہے تو اسے اپنے فرائض اور ذمہ داری کا احساس دلانے کی کوشش کی جائے ۔ ایسی کوشش نہ صرف سابق بیورو کریٹس کی ہے بلکہ ملک کے ہر ذمہ دار اور متفکر شہری کی ہے ۔ ہر اس شہری کی ذمہ داری ہے جو چاہتا ہے کہ ہندوستان دستوری دائرہ کار کے مطابق ہی کام کرے اور کسی کو کسی پر نہ بالادستی حاصل ہو اور نہ کسی کی اجارہ داری چل سکے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس ذمہ داری کو اب تک کسی نہ محسوس نہیں کیا ہے اور صرف چند سابق بیوروکریٹس نے اس پر پیشرفت کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو خوش آئند ہے اور کم از کم اب ان بیورو کریٹس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیول سوسائیٹی کے دوسرے گوشوں کو بھی حرکت میں آنے کی ضرورت ہے اور نہ صرف یوگی حکومت یا نریندر مودی کو بلکہ ہر اس حکومت کو جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے جو دستوری فرائض اور ذمہ داریوں کو فراموش کر بیٹھی ہیں۔
مرکز میں قائم ہونے والی حکومت ہو یا پھر ملک کی مختلف ریاستوں میں تشکیل پانے والی وزارتیں ہوں سبھی دستور ہند کے نام پر حلف لیتی ہیں ۔ دستور کی بالادستی کو یقینی بنانا ان کی سب سے بڑی اور اولین ذمہ داری ہوتی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ تقریبا ہر حکومت نے اس ذمہ داری کو فراموش کردیا ہے اور وہ اپنی من مانی پر اتر آئی ہیں۔ کہیں اکثریتی سیاست کو غلبہ دلانے کی بات کی جا تی ہے تو کہیں اقلیتوں کو دھمکایا جاتا ہے کہ وہ دوسرے درجہ کے شہری ہونے کو قبول کرلیں۔ انہیں مساوی حقوق نہیں مل سکتے ۔ کہیں دلتوں کے حقوق کو پامال کیا جاتا ہے تو کہیں خواتین کے مقام و مرتبہ کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ کہیں بچوں کے حقوق کو فراموش کیا جاتا ہے تو کہیں نوجوانوں کو حقیقی مواقع سے محروم کیا جاتا ہے ۔ اس ساری صورتحال کیلئے وہ عوام اور ووٹرس بھی ذمہ دار ہوتے ہیں جو حالات کو دیکھتے ہوئے اور جانتے بوجھتے بھی ایسے عناصر کو ووٹ کے ذریعہ اقتدار فراہم کردیتے ہیں۔ کہیں اگر کسی سے توقعات وابستہ ہوتی بھی ہیں تو ان کی عدم تکمیل پر انہیں اقتدار سے بیدخل کیا جانا چاہئے ۔ انہیں وقفہ وقفہ سے اپنے فرائض یاد دلائے جانے کی ضرورت ہے لیکن حالیہ عرصہ کا یہ بھی المیہ رہا ہے کہ کسی نے حکومتوں کو جھنجھوڑنے کا کام نہیں کیا تھا ۔ انہیں ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی کسی گوشے نے کوشش نہیں کی تھی اور اب کچھ ذمہ دار سابق بیوروکریٹس نے یہ کوشش کی ہے ۔
ان عناصر نے جو مکتوب روانہ کیا ہے اس میں جو حالات بیان کئے گئے ہیں وہ صرف یو پی کی حد تک محدود بھی نہیں کہے جاسکتے بلکہ یہ حقیقت ہے کہ ایسے حالات تقریبا ہر اس ریاست میں پائے جاتے ہیں جہاں بی جے پی کا اقتدار تھا ۔ اس سے واضح ہوجاتا ہے بی جے پی خود دستور کی بالادستی کو یقینی بنانے کی بجائے دستوری فرائض کے مغائر کام کرتی ہے ۔ ملک میں اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے میں اسکا یقین ہے ۔ اب جبکہ کچھ ذمہ دار بیوروکریٹس آگے آئے ہیں تو سیول سوسائیٹی کو بھی اس معاملہ میں اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہئے ۔ ہر گوشے کو اپنے اپنے طور پر حکومتوں کو خواب غفلت سے جگانے کیلئے آگے آنا ہوگا ۔