چین سے محلوں میں سوجاتے ہیں دھن کے لو بھی
جب بھی ہوتا ہے غریبوں پہ ستم ہوتا ہے
یوگا کی تشہیر
مودی حکومت نے اپنے ایک سال کے دوران ہر طرح کے شو، مختلف ڈرامے اور اسٹیج مظاہرے کئے ہیں۔ انتخابی وعدوں کی تکمیل کی جانب اقدامات کا عمل صفر نظر آرہا ہے تو عوام کی توجہ یوگا آسن کی جانب مبذول کروائی جارہی ہے جس یوگا کا چلن 100 سال سے جاری ہے اور جو ہندوستانی تاریخ کا حصہ ہے۔ اس کو محض انتخابی مہم چلانے میں کروڑہا روپئے کی مبینہ امداد دینے والے فرد کے یوگا پیشہ کو مقبولیت دینے کیلئے مودی حکومت نے اپنا حق تک ادا کرنے کا راج پتھ پر مؤثر پروگرام پیش کرکے راج پتھ کو یوگا پتھ میں تبدیل کردیا۔ یوگا کا ہر آسن آج کے ان سیاستدانوں کے لئے ضروری ہے جن کی جسامت بدعنوانیوں کی چربی سے فربہ ہوچکی ہے۔ ہندوستانی عام آدمی کے گھر سے اتنی ردی نہیں نکلتی جتنے وزن کے نوٹ سیاستدانوں کے گھروں اور تجوریوں سے نکلتے ہیں۔ یوگا گرو بابارام دیو کا بی جے پی اور نریندر مودی سے دوستانہ اس نکتہ پر قائم ہوا تھا کہ یوگا کی تشہیر کے ذریعہ ان کے تیار کردہ آسنوں کو عوام تک پھیلایا جائے۔ یوگا کو مختلف گوشوں نے مختلف عنوانات سے مربوط کیا تو بعض نے اس کو نماز کا متبادل عمل قرار دے کر تنازعہ پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ اسکولوں میں سوریہ نسمکار کو لازمی بنانے اور وندے ماترم پڑھانے کو یقینی بنانے کیلئے یوگا کی تشہیر کی جارہی ہے تو اس تاریخی ہندوستانی جسمانی ورزش کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہوں گے۔ عالمی یوم یوگا تقاریب کا انعقاد عمل میں لاکر مودی حکومت نے سرکاری مشنری کو ایک دن کے لئے اتنا مصروف کردیا کہ عوام کے روزمرہ کی ضرورتوں اور تقاضوں کو پورا کرنے کی جانب دھیان ہی نہیں جاسکا۔ آر جے ڈی سربراہ لالو پرساد یادو نے بی جے پی پر الزام عائد کیا کہ مودی حکومت ’’یوگا‘‘ کی سیاست کررہی اسے عوام کی صحت کی فکر نہیں ہے۔ مودی اپنا پی آر بڑھانے کے لئے اس طرح کے تماشے کررہے ہیں۔ جس ملک میں غریب آدمی کو روٹی کی جگہ یوگا کا آسن بتایا جانے کی کوشش ہورہی ہے تو آیا پھر غریب شخص کو یوگا کی ضرورت ہوگی۔ جس ملک میں 14 کروڑ افراد روزانہ خالی پیٹ سونے پر مجبور ہوتے ہیں وہاں یوگا پر حکومت کا اتنا شفقت بھرا مظاہرہ کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔ ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی بتایا تھا کہ ہندوستان میں غربت کی شرح میں کوئی کمی نہیں آرہی ہے۔ مودی حکومت اپنی زعفرانی پالیسیوں کو بتدریج عوام پر مسلط کرنے کوشاںہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت کو بھی فکرلاحق ہورہی ہے کہ ان کے بچوں کو اسکولوں میں سوریہ نمسکار کے لئے مجبور کیا جائے گا۔ حکومت کو یہ حق نہیں ہوتا کہ وہ ہر کسی کو یوگا کرنے کی زبردستی کرے اور یوگا کے لزوم کے ذریعہ وہ سوریہ نمسکار کو ہر ایک طالب علم پر پابند کرنا چاہتی ہے۔ مودی حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسلمان سوریہ نمسکار یا اس طرح کے دیگر امور میں حصہ نہیں لے سکتے۔ اس میں شک نہیں کہ انسانی صحت کے لئے محنت و مشقت اور ریاضت ضروری ہے۔ یوگا بھی ورزش کا ایک حصہ ہے اس سے ذہنی اور جسمانی فوائد حاصل ہوتے ہیں مگر مودی حکومت یوگا کے سامنے وندے ماترم، سوریہ نمسکار کو مسلم طلباء پر مسلط کرنے کی کوشش کررہی ہے تو اسے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ آیا اس ملک کا سیاستداں آگ برساتے سورج کے نیچے پسینے میں شرابور ہوکر کام کرنے والے مزدوروں کے بارے میں غور کرے گا۔ مودی حکومت یا کوئی اور لیڈر کے دل میں غریبوں کا بہت درد ہے لیکن ان کا سیاسی پیٹ جب بدہضمی کا شکار ہوتا ہے تو وہ یوگا کرتے ہیں۔ کیا اس طرح کے روڈ شوز سے ہندوستان کی تمام تر بدحالی دور ہوجاسکتی ہے۔ یوگا کی مشقت پر ہی دھیان دینے والی حکومت ملک کی اقتصادی راہ داری کے مکمل ہونے پر کب دھیان دے گی۔ ہمارے بااثر سیاستداں جب ایسے کام کرتے ہیں تو اس کا مختصر جواب یہ طلب کیا جاسکتا ہے کہ نوجوانوں کو یوگا کی جگہ روزگار کب دیا جائے گا۔ مودی حکومت جب کھلم کھلا صرف امیر طبقے کی خدمت میں مصروف ہے اور ملک کی معاشی ابتری کے بحران کا بوجھ صرف نچلے طبقے پر ڈال رہی ہے تو پھر ہندوستانی معیشت یوگا کے آسنوں میں ہی پھنسی رہے گی۔ بین الاقوامی برادری کے ساتھ ہر معاملہ میں ساتھ دینے والی ہندوستانی حکومت نے عالمی یوم یوگا میں بھی ساری دنیا کا ساتھ دیا ہے تو ترقی اور ہر شہری کے ساتھ انصاف کی پالیسی کے لئے مقبول ان ملکوں کا ساتھ دینے کا مظاہرہ کرنے میں کیا مانع حائل ہے۔