یوگا پر حکومت کا اصرار

ننھا دیپک رات پہ بھاری
حق پھر حق ہے باطل‘ باطل
یوگا پر حکومت کا اصرار
مرکز میں نریندر مودی کی قیادت میں جب سے این ڈی اے حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے ترقیاتی ایجنڈہ کو آگے بڑھانے اور سماجی و معاشی ڈھانچہ کو مستحکم کرنے کی بجائے نت نئے تفرقے پیدا کرنے کی کوششوں میں شدت آگئی ہے ۔ کبھی گھر واپسی کا پروگرام کیا جا رہا ہے تو کبھی بھگود گیتا کو قومی کتاب قرار دینے کی رائے دی جا رہی ہے ۔ کبھی یکساں سیول کوڈ کی بات کی جا رہی ہے تو حالیہ وقتوں میں رام مندر کی تعمیر کیلئے مختلف گوشوں سے اصرار کیا جا رہا ہے ۔ اب حکومت کی سطح پر یوگا کیلئے اصرار شروع ہوگیا ہے ۔ حکومت کے کام کاج کو آگے بڑھانے اور ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے پر توجہ دینے کی بجائے ایسے مسائل کو ہوا دی جا رہی ہے جن کے نتیجہ میں سماج کے تانے بانے بکھرنے کے اندیشے لاحق ہوتے ہیں۔ مرکزی حکومت نے بین الاقوامی سطح پر عالمی یوگا ڈے کی منظوری حاصل کرلی ہے اور ہندوستان میں اس کا بڑے پیمانے پر انعقاد عمل میں لانے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ حکومت کی سطح پر یہ پروگرام نئی دہلی میں راج پتھ پر 21 جون کو منعقد کیا جا رہا ہے ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ اور مختلف مسلم تنظیموں و جماعتوں کی جانب سے شدید اعتراض کے بعد حکومت نے محض یہ اعلان کیا کہ یوگا ڈے تقاریب میں شرکت لازمی نہیں بلکہ رضاکارانہ رہے گی اور کسی کو بھی اس کیلئے مجبور نہیں کیا جائیگا ۔ یوگا میں سوریہ نمسکار نقطہ آغاز سمجھا جاتا ہے ۔ مسلمان اس پر بھی عمل نہیں کرسکتے ۔ اب حکومت یہ تجویز پیش کر رہی ہے کہ مسلمان اشلوک کی جگہ اللہ کا نام لیں لیکن یوگا ضرور کریں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت یوگا کو لازمی کرنا چاہتی ہے ۔ وہ حکومت کے کرنے کے کئی کام چھوڑ کر یوگا کے پیچھے پڑی ہوئی ہے اور اس سے مسلمانوں کو ہراسانی کا طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے ۔ حکومت تو اپنے طور پر یہ کہہ رہی ہے کہ یوگا تقاریب میں شرکت رضاکارانہ ہے لیکن خود بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ یوگی آدتیہ ناتھ بکواس کی ہے کہ سوریہ نمسکار کی مخالفت کرنے والوں کو سمندر میں غرق کردیا جانا چاہئے ۔ خود برسر اقتدار جماعت بی جے پی کا کہنا ہے کہ یوگا اور سوریہ نمسکار کی مخالفت ایک بڑا گناہ اور قوم مخالف جرم ہے ۔
جہاں تک مسلمانوں کا سوال ہے وہ اللہ تبارک و تعالی کے سوا کسی کے آگے سر تسلیم خم نہیں کرسکتے ۔ ایسا کرنا ان کیلئے گناہ کبیرہ اور شرک ہے ۔ یوگا میں سوریہ نمسکار در اصل سورج کی پوجا ہے جو کسی بھی مسلمان کیلئے قابل قبول نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ جو اشلوک یوگا میں گائے جاتے ہیں وہ بھی مسلمان نہیں دہرا سکتے ۔ سورج کے سامنے سر جھکانے یا پھر اشلوک پڑھنے کیلئے مسلمانوں کو مجبور کرنا حکومت کیلئے مناسب نہیں ہے ۔ یوگا ایک ایکسر سائز ہوسکتی ہے اور اس کا کرنا یا نہ کرنا ہر ایک کا اپنا اختیاری فعل ہے ۔ حکومت یوگا کے ذریعہ ملک کے عوام کیلئے ایک ایسا ٹائم ٹیبل بنانا چاہتی ہے جس پر عمل ہر ایک کیلئے لازمی ہوجائیگا جو قابل قبول نہیں ہوسکتا ۔ مرکزی وزیر شرے پد نائک کا کہنا ہے کہ مسلمان یوگا میں حصہ لیں اور ملک کو متحد رکھیں۔ اب انہیں یہ وضاحت کرنے کی ضرورت ہے کہ یوگا میں شمولیت سے ملک کو متحد رکھنے کا کیا تعلق ہے ۔ کیا یوگا نہ کرنے والے ملک دشمن ہیں ؟ ۔ کیا یوگا نہ کرنے والے ملک کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں ؟ ۔ حکومت کو ایسا لب و لہجہ اور زبان استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔ حکومت محض ایک غیر اہم مسئلہ کو ایک بڑا مسئلہ بناتے ہوئے اسے ملک کے اتحاد سے جوڑنے کی کوشش کر رہی ہے جو اس کے پوشیدہ عزائم کا حصہ ہوسکتا ہے ۔ حکومت نے اس سلسلہ میں کچھ نام نہاد مسلم تنظیموں کی تائید بھی حاصل کی ہے لیکن حکومت کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ حکومت کی تائید کرنے والے کتنے بھی با اثر ہوں وہ مسلمانوں کو سورج کے سامنے جھکنے یا سوریہ نمسکار کیلئے مجبور نہیں کرسکتے ۔
جہاں تک بدنی مشق یا اکسرسائز کا تعلق ہے اس معاملہ میں مسلمانوں کو کسی مشورہ یا رہنمائی کی ضرورت نہیں ہے ۔ مسلمانوں کیلئے اسلام نے دن میں پانچ مرتبہ نمازیں فرض کی ہیں اور ان کی مکمل ادائیگی مسلمانوں کیلئے بہترین بدنی مشق ہے ۔ یوگا یا ان کیلئے ضروری نہیں ہے اور سوریہ نمسکار ان کیلئے ہرگز قابل قبول نہیں ہوسکتا ۔ حکومت کے سامنے ملک کو ترقی دینے اور ملک کے عوام کو درپیش سنگین مسائل کو حل کرنے جیسے چیلنجس ہیں اور ان پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ یوگا یا پھر سوریہ نمسکار جیسے اختلافی مسائل کو حکومت کی سطح پر ہوا دینا ٹھیک نہیں ہے ۔ حکومت کو ایسی کوششوں سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔