سب مجھے اجنبی سمجھتے ہیں
کوئی بھی میرا رُوشناس نہیں
یوکرین اور روس کا رول
اقوام کے اندر بیجا مداخلت اور ایک علاقہ کے لوگوں کی ناراض سرگرمیوں کا فائدہ اٹھانے پڑوسی ملکوں کی کوششوں کو ناپسندیدہ قرار دیا جاتا ہے ۔ ان دنوں یوکرین میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ایک طرح سے روس کی بیجا مداخلت کہی جارہی ہے ۔ سابق سوویت یونین کا حصہ رہنے والے یوکرین میں کریمیا علاقہ کے عوام نے جو روسی زبان بولتے ہیں اور اپنے ملک یوکرین کے دیگر شہریوں سے ناراض ہیں حال ہی میں پارلیمنٹ کے ذریعہ رائے دہی کے ساتھ روس سے کریمیا کے الحاق کا فیصلہ کیا تھا ۔ یہ فیصلہ عالمی طاقتوں کی نظر میں روس کی سازش کا حصہ معلوم ہوتی ہے تب ہی عالمی طاقتوں جیسے امریکہ ، یوروپی یونین نے صدر روس ولادیمیر پیوٹن کو ان کی حرکتوں سے باز رکھنے تحدیدات بھی نافذ کردیئے ہیںاور G8سے معطل بھی کردیا گیا۔ مگر کریمیا کی پارلیمنٹ میں باقاعدہ رائے دہی کے بعد کیا گیا فیصلہ ایک طرح سے عوام کی خواہش کا مظہر سمجھا جارہا ہے ۔ روسی زبان بولنے والے یوکرینی باشندوں کو اپنے حکمرانوں سے شکایت تھی اس لئے وہ خود کو روس سے وابستہ کرنے پر آمادہ تھے ۔اس مسئلہ پر روس کے رول کو مشتبہ نگاہی سے دیکھا جارہا ہے۔ امریکہ کے بشمول تمام ملکوں نے اقوام متحدہ میں روس کے خلاف احتجاج بھی کیا ہے ۔
ان دنوں روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن سے دنیا کے چند طاقتور ممالک ناراض ہیں ۔ کسی ملک کے مقتدر اعلیٰ میں مداخلت کا رجحان دیگر ملکوں میں خفیہ یا مشتبہ طورپر فروغ پارہی ناراض سرگرمیوں کو بھی تقویت پہونچاسکتا ہے۔ اگر ہر ملک میں عوام کا مختلف گروہ مختلف ملکوں کا حامی بن جائے یا اس جانب مائل ہوں تو پھر اس ملک کے مقتدر اعلیٰ پر ایک بڑی ضرب متصور ہوگا ۔ کریمیا میں تو جشن منایا جارہا ہے، اگر روسی زبان بولنے والے یوکرینی باشندوں کو اپنے پڑوسی ملک روس سے الحاق کرتے ہوئے خوشی ہورہی ہے تو یہ ان کی آزادی کا جشن ہے مگر یہ کہنا مشکل ہے کہ انھیں اپنی مرضی سے آزاد ہونے کا خمیازہ کس حد تک بھگتنا پڑے گا ۔ روس نے کریمیا کو ایک آزاد ریاست تسلیم کرلیا ہے ۔صدر روس ولادیمیر پیوٹن نے حکم نامے پر دستخط کردیئے ہیں۔ اتوار کے دن یوکرین میں کروائے گئے ریفرنڈم میں 97 فیصد عوام نے کریمیا کے خطے کو یوکرین سے علحدہ کرکے روس میں شامل ہونے کے حق میں ووٹ دیا تھا ۔کسی ملک میں عوام کی اکثریت کو نظرانداز کرکے ان کے حقوق کو سلب کرنے اور ان پر پابندیاں عائد کرنے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ ناراضگیوں کو زبردست تقویت ملتی ہے ۔ یوکرین کے حکمرانوں پر الزام ہے کہ انھوں نے روسی زبان بولنے والے باشندوں پر غیرضروری پابندیاں عائد کی تھیں ، اس ریفرنڈم میں انہی لوگوں نے اہم رول ادا کیا جو پابندیوں کاشکار تھے ۔ امریکہ اور یوروپی یونین نے روس کی اس حرکت پر برہمی ظاہر کی ہے مگر یہ دونوں روس کو خوف زدہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ۔ امریکہ کو یوکرین سے ہمدری ہے تو اسے عوام کے ریفرنڈم کی جانب بھی توجہ دینی چاہئے ، امریکہ اس ریفرنڈم کو غیرقانونی سمجھتا ہے تو اگے چل کر اس کے عالمی سطح پر کیا نتائج برآمد ہوں گے یہ وقت ہی بتائے گا ۔
فی الحال سرد جنگ کے دوسرے دور کا آغاز ہورہا ہے تو یہ تمام ترقی یافتہ اور ترقی پسند ملکوں کے لئے فال نیک نہیں ہے ۔ امریکہ کی پابندیوں کی وجہ سے روس کے اہم قائدین اور اہم شخصیتوں کے دورہ امریکہ پر روک لگے گی ۔ روس نے یوکرین میں موجود روسی زبان بولنے والے باشندوں کے ساتھ ہمدردی کی ہے یا مطلب براری سے کام لیا ہے اس کا اندازہ آگے چل کر کریمیا کے حالات سے ہوگا ۔ روس اس الحاق کے بعد یوکرین میں حالات کو مزید ابتر بننے کی کوشش کرے گا تو اسے زیادتی متصور کیا جائے گا۔ یوکرین سے کریمیا کی علحدگی کے بعد یوکرین کے عوام کو بھی اپنے حصہ کی زندگی بہتر طریقہ سے جینے کی اجازت دی جائے اور یوکرین میں سیاسی حالات معمول پر لانے میں روس مدد کرتا ہے تو پھر وہ عالمی عتاب سے بچ جائے گا ۔ اقوام متحدہ میں مواخذہ کا جہاں تک سوال ہے کریمیا کا ریفرنڈم اگر بین الاقوامی قوانین کے مطابقت میں ہے تو پھر عالمی قائدین اور خود یوکرین کو اس ریفرنڈم کو تسلیم کرنا چاہئے لیکن کریمیا کو آزاد مملکت کا درجہ دینے سے انکار کرتے ہوئے یوکرین نے اس ریفرنڈم کو تسلیم نہیں کیا ۔ تشدد کے خوف تلے کروائے گئے اس ریفرنڈم کو اگر عالمی برادری قبول نہیں کرتی ہے تو روس کو اقوام متحدہ میں اپنا ادعا پیش کرنے اور صفائی بیان کرنے کے دوران کیا موقف حاصل ہوگا یہ یوکرین کے مستقبل کے حالات پر منحصر ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یوکرین سے علحدہ ہونے والے کریمیا کو ایک آزاد مملکت تسلیم کیا جائے گا یا اقوام متحدہ میں کریمیا کو ایک جمہوری ملک کا درجہ ملے گا ۔ سابق سوویت یونین سے علحدہ ملکوں میں یوکرین کے اندر پھوٹ کے حالات کو ہوا دینے اور عوام کو علحدگی کے لئے اکسانے یا انھیں آزادی دلانے کی کوششوں کو منفی و مثبت پہلوؤں میں منقسم کرکے دیکھا جائے تو یہ تنازعہ مشکل بن جائے گا اور اس کا جھگڑا عوام کے لئے دیرپا امن کا باعث نہیں ہوگا ۔