ہندوستان کا سیاسی منظرنامہ بڑی تیزی سے ہندوتوا کی طرف بڑھتے جارہا ہے ۔ ہندوشدت پسند ذہنیت اقتدار کی سیڑھیوں پر کامیابی کے ساتھ براجمان ہوتی جارہی ہے ۔ ہندوستان میں سیاسی طورپر اُترپردیش کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ اسلئے بھی کہ ۱۹۹۲ ء میں بابری مسجد کی شہادت کے ساتھ ہندوستان کی تاریخ میں ایک نئے سیاسی انقلاب کا آغاز ہوا اور سیکولر پارٹیوں کی مسلسل ناکامیوں نے زعفرانی جماعتوں کو مضبوط قدم جمانے کا بھرپور موقع دیا ۔ اُترپردیش میں بی جے پی بھاری اکثریت کے ساتھ انتخابات جیتی ہے اور ایسے شخص کو وزیراعلیٰ کے عہدہ پر نامزد کرتی ہے جس کی ساری زندگی ہندوتوا کے لئے وقف رہی ہے جو اپنے اشتعال انگیز بیانات، مسلم دشمنی اور اسلام دشمن فسادات میں ملوث رہا ہے ۔ بحیثیت چیف منسٹر اس کاتقرر درحقیقت بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کی راہ کو ہموار کرنا ہے۔ ایسے وقت جب ہندوستان میں مرکزی حکومت اور اُترپردیش میں ریاستی حکومت بی جے پی کی ہو تو ان کو بابری مسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر کرنے میں بظاہر کیا رکاوٹ آسکتی ہے؟ جبکہ اس پارٹی کو عدالتی احکامات کا اس وقت کوئی پاس و لحاظ نہیں رہا جبکہ ان کو مرکز اور ریاست میں اقتدار حاصل نہیں تھا اور جب ان کو اقتدار حاصل ہو تو ان سے کس طرح عدالتی احکامات کے احترام کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ نیز ۱۹۴۹ء سے تا حال سارے عدالتی فیصلہ جات مسلمانوں کے خلاف ہی رہتے ہیں ۔
تعجب کی بات ہے کہ بی جے پی ہائی کمان نے اُترپردیش جیسی بڑی ریاست میں وزیراعلیٰ کے لئے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا ہے جس نے ہندوتوا کے مسئلہ پر سابق میں راست بی جے پی سے شدید مخالفت کی ہے اور بی جے پی کے خلاف امیدوار کھڑا کرکے کامیابی دلوائی ہے ۔ ایسے جنونی شخص پر بی جے پی کا سیاسی اعتماد کرنا قیامت خیز تباہی کی علامت ہے اور جس رفتار سے نئے وزیراعلیٰ اُترپردیش کی ریاست کو تبدیل کرنے کے خواہشمند ہیں وہ بلاشبہ عوام پر بظاہر حکومت سے متعلق مثبت اثرات مرتب کریگا اور حکومت کی تائید میں مثبت رائے عامہ کو ہموار کرنے میں کامیابی حاصل کرلیگا ۔ اس کے برخلاف مسلمان اُترپردیش میں اپنی سیاسی سمجھ بوجھ پیش کرنے میں ناکام نظر آئے ۔ واضح باد کہ بی جے پی نے یوپی کے اسمبلی الیکشن میں اپنے Manifesto میں بابری مسجد کے مقام پر مندر کی بعجلت ممکنہ تعمیر کرنے کو شامل کیاہے ۔
اگر اب بھی مسلمان خواب غفلت سے بیدار نہ ہوں اور آنے والے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے کمرہمت کس نہ لیں اور حکمت و دانائی ، دوراندیشی اور بصیرت سے کام نہ لیں ، بالخصوص سیاسی تدبر و آگاہی کا مظاہرہ نہ کریں تو بہت جلد یہ آگ مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کے لئے بھڑک اُٹھے گی اور جب خوابیدہ قوم پر بجلیاں گرتی ہیں تو صرف تباہی ہی تباہی ہوتی ہے ۔
اب وقت آگیا ہیکہ مسلمان اپنے وطن عزیز ہندوستان کو مذہبی جنون اور نفرت و عداوت سے محفوظ رکھنے کیلئے کمرہمت باندھ لیں، فرقہ پرست عناصر کو کچلنے کے لئے سیکولر ذہن کو اپنا ہمنوا بنائیں اور سیکولر غیرمسلمین کے ساتھ ملکر اپنے وطن کو بچانے کی فکر کریں۔ موجودہ دور میں مسلمانوں پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ ایک طرف اسلامی شعائر کی حفاظت ہے اور دوسری طرف اپنے وطن عزیز کی حفاظت۔ مسلمان ان دونوں ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے ۔ جہاں تک بابری مسجد کا معاملہ ہے ایک رتّی زمین پر مفاہمت نہیں ہوسکتی۔ یو پی میں بی جے پی اقتدار پر آتے ہی سپریم کورٹ کے معزز جج کا دردمندانہ مشورہ منظرعام پر آتا ہے کہ فریقین باہمی مصالحت سے اس مسئلہ کا حل کرلیں جبکہ شرعی لحاظ سے کسی مسلمان تنظیم ، جماعت ، فرد کو مسجد کی ایک اینچ زمین پر مصالحت و مفاہمت کرنے کا کوئی حق نہیں ۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ پر ہندوستان کے مسلمانوں نے اعتماد کیا ہے ۔ موجودہ وقت مسلم پرسنل لاء بورڈ کا محض سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنا قرین مصلحت معلوم نہیں ہوتا ۔ حقیقی فیصلہ کن مرحلہ آنے سے قبل ہندوستان کے تمام مسلمانوں کو بابری مسجد کے تحفظ کے لئے ہندوستان کے پایہ تخت دہلی میں جمع ہوکر اپنی طاقت و قوت اور بابری مسجد سے وابستگی و تعلق کا ایک ہلکا نمونہ بتانا ضروری ہے تاکہ حکومتیں جان لیں کہ وقت آنے پر مسلمان سیلاب کی طرح اُمنڈکر اپنی مسجد کی حفاظت کریں گے۔