یونیورسٹی واقعات میں بائیں بازو انتہاپسندو جہادی ملوث

بی جے پی ہر محاذ پر نظریات کی لڑائی میں فاتح ‘ 9فبروری کو قوم دشمن نعرے لگائے گئے ‘ ارون جیٹلی کا بیان
نئی دہلی ۔27 مارچ ( سیاست ڈاٹ کام ) وزیر فینانس ارون جیٹلی نے آج اعتدلال کے ساتھ کہا کہ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی دونوں جگہ رونما ہونے والے واقعات میں بائیں بازو کی انتہا پسند تحریکوں نے اپنا رول ادا کی اور اس میں ’’ جہادیوں‘‘ کا ایک چھوٹا گروپ بھی ملوث تھا ۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے معاملہ میں احتجاجیوں کے اندر بائیں بازو انتہا پسند بھی ملوث تھے اور ان کا ساتھ چند مٹھی بھر جہادیوں نے دیا تھا جنہوں نے کیمپس میں مظاہرے کے دوران اپنے چہروں پر نقاب ڈال لیا تھا ۔ اس رات کیمپس میں ملک دشمن کے نعرے لگائے گئے تھے ۔ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے کیمپس میں ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے نام کو غیر منصفانہ طور پر استعمال کیا گیا ۔ ریسرچ اسکالرروہت ویملولہ کی خودکشی کے بعد اس واقعہ کے خلاف احتجاج کید وران دلت طبقہ کا سہارا لیا گیا ‘ انہیں یہ جان کر اطمینان ہوا کہ ملک بھر سے تعلق رکھنے والے مذہبی اور اقلیتی گروپس نے ان دونوں یونیورسٹیوں میں ہوئے واقعات پر مباحث کیلئے تیار کردہ پروگرام میں حصہ لیا ۔ اعتدال پسند بائیں بازو اور کانگریس ان واقعات میں پھنس چکی ہیں اور بی جے پی نے ان واقعات کو اپنے نظریات کوچیلنج کے طور پر قبول کیا ہے ۔

اس سلسلہ میں پہلے مرحلہ میں بی جے پی کامیاب ہوگئی ہے ۔ نظریاتی مباحث میں  ہر ایک کو حصہ لینے کی ضرورت پر یہ پوچھے جانے پر کہ آیا وہ توقع رکھتے ہیں کہ اس طرح کی بحث کے کئی مرحلے ہونے چاہیئے ۔ بی جے پی لیڈر نے کہا کہ یہ ان کی پارٹی کی لڑائی نہیں ہے اور نہ ہی اس نے یہ لڑائی چھیڑی ہے ۔ ہم تبت کا مسئلہ نہیں اٹھا رہے ہیں بلکہ اگر کوئی پورے  خیال کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوتا ہے تو ایسی صورت میں بحث و مباحث ہوں گے ۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا بی جے پی قوم  پرستی کی جنگ چھیڑ کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ ارون جیٹلی نے کہا کہ میں کسی نفع و نقصان پر نہیں جارہا ہوں ‘ یہ ایک نظریاتی موقف ہے اور ہم اپنا ایک نکتہ نظر رکھتے ہیں اس لڑائی میں ہم کو شکست نہیں ہوگی ۔ ارون جیٹلی نے کہا کہ ہم نے اس کو نظریاتی چیلنج کے طور پر قبول کیا ہے ۔ اس لئے کہ حکومت کے ترقیاتی ایجنڈہ اور قوم پرستی پر مباحث کے درمیان کوئی نفا نہیں ہے ۔ اس سلسلہ میں مل میں ایک ایسا گوشہ ہے جو چھوٹا ہے اور اسے یہاں کوئی پذیرائی نہیں ہورہی ہے اس لئے وہ مسئلہ کو ادھر اُدھر گھما رہا ہے ۔ اس ملک میں بھارت ماتا کی جئے کا نعرہ لگانا ضروری یا لازمی نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ صرف چند لوگوں کیلئے نازک مسئلہ بنا ہے کیونکہ جب کوئی یہ کہہ کہ مجھے بھارت ماتا کی جئے کہنے پر اعتراض ہے اور میں یہ نعرہ نہیں لگاؤں گا تو یہ واضح طور پر منطر عام آنے والی بات ہے ۔