طلباء کی نقل و حرکت پر نظر ، طالب علموں کی آزادی چھین لینے کی درپردہ کوشش
حیدرآباد ۔ یکم ۔ مارچ : ( سیاست نیوز ) : ہندوستانی مسلم نوجوانوں کے بعد اب حکومت کی نظر میں ملک کی جامعات میں تعلیم حاصل کررہے طلبہ کھٹکنے لگے ہیں اور بیشتر جامعات میں خفیہ ایجنسیوں کی سرگرمیوں میں زبردست اضافہ دیکھا جارہا ہے ۔ شہر حیدرآباد میں موجود مرکزی حکومت کے زیر انتظام چلائی جانے والی سنٹرل یونیورسٹیز اور اسٹیٹ یونیورسٹیز میں بھی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار قیام کیے ہوئے طلبہ کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور خفیہ ایجنسیوں کی یہ کارروائیاں اساتذہ اور انتظامیہ کے علاوہ زعفرانی ذہنیت کے حامل طلبہ کی نظروں میں بائیں بازو و دیگر نظریات کے حامل نوجوان طلبہ کو مزید مشتبہ بنا رہی ہیں ۔ مرکزی حکومت کی جانب سے یونیورسٹیز میں طلبہ کی حرکتوں پر نظر رکھنے کے لیے متعین کردہ اہلکاروں کی سرگرمیاں ہی طلبہ کی نظر میں مشتبہ نظر آرہی ہیں ۔ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ایک ریسرچ اسکالر نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے کی جانے والی یہ حرکات ملک میں جامعات کی سرگرمیوں اور اختلافی مسائل کے مباحث پر اثر انداز ہوسکتی ہے ۔ جامعات میں اختلاف رائے پر مباحث کے ذریعہ طلبہ نہ صرف اپنے مستقبل کا بلکہ ملک کے مستقبل کا تعین کرتے ہیں اور اگر خفیہ ایجنسیوں کی نگرانی کے ذریعہ ان کی یہ آزادی چھین لی جاتی ہے تو ایسی صورت میں صرف ایک مخصوص فکر ابھرے گی جو کہ ملک کے مستقبل کے لیے بہتر نہیں ہے ۔ ریاست تلنگانہ کی جامعات میں اطلاع کے مطابق 5 تا 8 خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار مامور کئے گئے ہیں جو طلبہ کی سرگرمیوں کی نگرانی کررہے ہیں ۔ 1992 کے بعد سے ہندوستان میں مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنانے کے بعد اب یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہے طلبہ کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ یہ طلبہ مخالف حکومت نظریہ کے فروغ میں اپنا کردار ادا نہ کریں بلکہ ہر طرح کے حالات پر خاموش تماشائی بنے رہیں ۔ تحریک تلنگانہ کے علاوہ کئی ایک امور پر طلبہ نے کامیاب تحریکیں چلاتے ہوئے حکومت کو مطالبات ماننے پر مجبور کیا لیکن 2014 کے بعد ملک میں جامعات کو ایک مخصوص نظریہ کے فروغ کے مراکز میں تبدیل کرنے کا عمل شروع کیا گیا لیکن گزشتہ دو برسوں کے دوران طلبہ نے اس سازش کو کامیاب ہونے نہیں دیا لیکن حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں روہت ویمولا کی خود کشی ، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں طلبہ پر غداری کے مقدمات کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ راست یا بالواسطہ نہیں بلکہ سرکاری سطح پر جامعات میں ایک نظریہ کو فروغ دیا جارہا ہے ۔ جامعہ عثمانیہ میں بھی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی تعیناتی کوئی نئی بات نہیں ہے مگر جب حکومت کی جانب سے طلبہ کو مشتبہ سمجھا جانے لگے اور ہاسٹلس میں خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی تعیناتی عمل میں لائی جانے لگے تو یہ بات طلبہ کے حقوق کو سلب کرنے کے مترادف ثابت ہوگی ۔ ایفلو میں مدثر کامران کی موت کے بعد بھی اس طرح کی اطلاعات منظر عام پر آئی تھیں لیکن تحریک تلنگانہ کی شدت نے ان اطلاعات کو برفدان کی نذر کردیا ۔ لیکن اب ملک کی مختلف یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کررہے طلبہ اس مسئلہ پر فکر مند ہیں اور حکومت کی جانب سے طلبہ کی سرگرمیوں پر رکھی جانے والی نظر اور یونیورسٹی کیمپس میں خفیہ ایجنسیوں کی تعیناتی پر شدید برہمی کا اظہار کیا جانے لگا ہے ۔۔