یونان کا مالیاتی بحران

یوروپی یونین کو اپنے یورو زون کی طاقت سے استفادہ کرنے کا موقع مل رہاہے اس لئے یونان کے بحران میں تعاون سے گریز کیا جارہا ہے ۔ مالیاتی ابتری سے دوچار کسی ملک کو بچانے کے لئے اگر طاقتور گروپ ہاتھ کھینچ لیتے ہیں تو صورتحال نازک ہوتی ہے۔ یونان نے یوروپی یونین سے راحت پیاکیج کی درخواست کی تھی جس کو یکسر مسترد کردیا گیا ۔ یوروپی استحکام کے میکانزم کے مطابق کسی ملک کو مالیاتی راحت دینے کے لئے عام طورپر معمول کے طریقہ کار پر عمل کیا جاتا ہے لیکن یونان کے معاملہ میں لمحہ آخر کی اپیل پر بھی توجہ نہیں دی گئی ہے ۔ وزیراعظم یونان الیکس ٹسپرس نے یوروپی یونین سے دو سال کا راحت پیاکیج دینے کی درخواست کی ہے ۔ اس مالیاتی بحران کا عالمی مارکٹ پر بھی اثر پڑا ہے ۔ ہندوستان میں بھی شیر مارکٹ میں گراوٹ درج کی گئی اگرچیکہ اس بحران کا راست کوئی اثر مرتب نہیں ہوگا ۔ البتہ دیگر ممالک جیسے چین وغیرہ یونان بحران کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے مالیاتی موقف کو مضبوط بنانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ یونان کو یوروپی کمیشن ، یوروپین سنٹرل بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ پر مشتمل ٹریکوما کو رقومات کی ادائیگی میں ناکامی ہوئی ہے ۔ قرض دہندہ کو مہلت دیئے بغیر سخت قدم اٹھانے سے اس ملک کے عوام پر منفی اثر پڑے گا ۔ یونان کو یورو زون سے خارج ہونے سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ یوروپی یونین ، آئی ایم ایف اور یورپی سنٹرل بنک کو کوئی سیاسی نتیجہ پر کام کرنا ہوگا ۔ اب یونان کے عوام کے سامنے ریفرنڈم کی شکل میں ایسے فیصلہ کی گھڑی ہے جس کے ذریعہ وہ اپنے ملک اور اپنے خود کے مستقبل کے لئے فیصلہ کرسکتے ہیں۔

ریفرنڈم میں عوام کی رائے میں یونان کے وزیراعظم ٹسپرس کی حکومت کی بقا پر منحصر ہے ۔ اگر ریفرنڈم میں ہاں یا نہیں کے ووٹ میں فرق پیدا ہوتا ہے تو دونوں صورتوں میں یونان کے لئے مشکل مرحلہ ہی ہوگا کیوں کہ وزیراعظز ٹسپرس نے ریفرنڈم میں ’’نہیں ‘‘ کی حمایت کرکے اپنی ساکھ خراب کرچکے ہیں ۔ اگر یہ ریفرنڈم ان کے خلاف چلا جائے تو انھیں مستعفی ہونا پڑے گا ۔یونان کے بحران پر نظر رکھنے والے ملکوں میں امریکہ بھی شامل ہے ۔ امریکہ کو اس بحران کی فکر نہیں ہے لیکن 18 یوروپی ممالک ملک کر ایک ملک کی مالیاتی ابتری کو بہتر بنانے کیلئے ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں تو دیگر عالمی طاقتوں کو بچاؤ کاری مہم پر آگے آنے کی ضرورت ہے۔وزیراعظم کے ریفرنڈم سے بھی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں کیوں کہ عوام نے مالیاتی اصلاحات والے اس ریفرنڈم میں ’’نہیں ‘‘ کی حمایت کی تو پھر یونان یورو زون سے خارج ہوجائے گا ۔ جس ملک کی معاشی حالت ابتر ہو وہاں ریفرنڈم بھی ایک نازک صورتحال پیدا کرسکتا ہے ۔ یونان کو اپنی مالیاتی پوزیشن کو مدنظر رکھ کر ریفرنڈم کا فیصلہ کرنا تھا ۔ عوام کو ایک عرصہ تک بنکوں سے رقومات نکلوانے پر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف ) سے لئے گئے قرض کی قسط کی ادائیگی کی حتمی مدت ختم ہونے سے قبل ہی قرض راحت کی اپیل پر کسی نے بھی غور نہیں کیا ۔ اگر آئی ایم ایف کو 1.1 ارب یورو کی قسط ادا کرنے میں ناکامی ہوئی ہے تو اس مسئلہ کو یوروپی یونین اور دیگر اداروں کو مل کر مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ یوروپی یونین کو اپنے رکن ملک کی نازک گھڑی میں مدد کرنے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے ۔ یونان کو دیوالیہ پن سے بچانے کیلئے حکومت سے مذاکرات کو ترجیح دی جائے مگر یوروپی یونین کے سخت موقف سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یونان کو مزید بحران کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ کسی بھی ملک کی قیادت کے مالیاتی فیصلے اور بدنظمی کے باعث ہونے والے نقصانات کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ یونان نے اگرچیکہ پانچ سال تک کفایت شعاری سے کام لے کر مالیاتی بحران پر قابو پانے کی کوشش کی تھی لیکن اس ملک کے پیچیدہ ٹیکس نظام کے باعث مالیہ کو متحرک کرانے میں ناکامی ہوئی ۔ حکومت کی جانب سے جب عوام کو ٹیکس راحت دینے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کا سرکاری خزانہ پر شدید اثر پڑتا ہے ۔ یونان کی حکومت نے بھی انتخابات میں کامیابی کیلئے جو وعدے کئے تھے اس کے مطابق ٹیکس راحتوں کاسلسلہ شروع کردیا نتیجہ میں مالیہ کو متحرک کرنے میں مدد نہیں ملی ۔ حکومت یونان نے معیشت کو درپیش مسائل پر دھیان نہیں دیا ۔ مالیات سے متعلق اہم مسائل کو حل کرنے کیلئے بھی اس نے سنجیدہ کوشش نہیں کی ۔ وقت ضائع کردینے کے بعد دوڑ دھوپ کرنے سے مسائل فوری حل نہیں ہوسکتے ۔ ہندوستان کے سامنے یونان کا بحران ایک درس کی حیثیت رکھتا ہے ، اس لئے مالیاتی نظام کو غیرمتوازن بنانے سے قبل حکومت ہند کو بھی سرمایہ مارکٹ یا نقدی کے معاملوں میں لاپرواہی نہیں کرنی چاہئے ، ویسے ہندوستان نے معاشی اصلاحات کاعمل 1991 ء سے جاری ہے تو امید ہے کہ یونان جیسی صورتحال پیدا نہیں ہوگی ۔ مالیاتی اُمور میں احتیاط وقت کاتقاضہ ہے۔