محرم الحرام کے آغاز ہی سے کربلا کے عظیم سانحہ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے، دردناک واقعہ کا غم پھر سے ہرا ہو جاتا ہے اور اہل بیت اطہار کی عظیم قربانیوں کی یاد سے سب کے دل لبریز ہو جاتے ہیں۔ امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت تاقیامت تازہ رہے گی اور ہر وقت اہل باطل کے خلاف اہل حق کے لئے ایک لازوال پیغام عزیمت دیتی رہے گی۔ منصوبہ بند سازش کے تحت امام عالی مقام کو حرمین شریفین اور سرزمین حجاز سے باہر لایا گیا اور کربلا کے غیر آباد میدان میں آپ کو شہید کیا گیا۔ آپ نواسۂ رسول ہیں، حضرت سیدہ بی بی فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالی عنہا کے لخت جگر ہیں، حضرت علی مرتضی کرم اللہ تعالی وجہہ کی آنکھوں کے تارے ہیں، آغوش نبوت میں پروان چڑھے ہیں، دوش رسول پر سوار ہوئے ہیں۔ جن کی ادنی سی تکلیف سے رسالت مآب علیہ الصلوۃ والسلام غمزدہ ہو جاتے اور ان کی بیماری سے فکرمند ہو جاتے۔ جن کو دیکھ کر لب رسالت پر مسکراہٹ آجاتی، جو جان رسالت کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں، خاندان نبوت کے چشم و چراغ ہیں
اور ان ہی سے خاندان نبوت کا تسلسل ہے۔ جن کے رونے سے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم بے چین و بے قرار ہو جاتے۔ افضل البشر بعد الانبیاء حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ جن کی دلجوئی کرتے اور تمام صحابہ کرام جن کا احترام ملحوظ رکھتے۔ ایسی مقدس و پاکیزہ ہستی کو دنیا کے طلبگاروں نے، اقتدار کے بھوکوں نے، حرص و ہوس کے متوالوں نے بھوکا و پیاسا خانوادے کے ساتھ شہید کردیا۔ جن کی شہادت سے عرش الہی دہل گیا، آسمان و زمین اپنی حرکت کو بھول گئے، روئے زمین کی سب سے مقدس ہستی کو درندوں نے، جن کی قلب و نگاہ پر شقاوت و بدبختی کی مہر لگی تھی، شہید کردیا۔ یہ وہ غم ہے، جو تاقیامت باقی رہے گا اور ہروقت، ہر دور اور ہر زمانے میں یہ پیغام حق دیتا رہے گا کہ باطل خواہ کتنی ہی طاقت و قوت کا حامل کیوں نہ ہو، حق خواہ کتنا ہی کمزور و مغلوب کیوں نہ ہو، باطل کے سامنے سینہ سپر ہونا، اس کی طاقت و قوت کی پروا نہ کرنا، بھلے شہید ہو جائیں مگر لوائے حق کو جھکنے نہیں دینا، یہی شہادت حسینی کا پیغام ہے۔
محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو تاریخ اسلام کا سب سے کربناک واقعہ رونما ہوا۔ اگرچہ شہادت اجلہ صحابہ کی بھی ہوئیں، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی، حضرت حمزہ کے علاوہ بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی دل دلانے والی شہادتیں ہوئیں، لیکن امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو جو خاص تعلق و نسبت اور پدرانہ و پسرانہ محبت و الفت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل تھیں، امام عالی مقام کو جلیل القدر صحابی رسول ہونے کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جزو مبارک ہونے کا شرف حاصل تھا، اس بناء آپ کی شہادت ’’شہادت عظمیٰ‘‘ ہے اور آپ سید الشہداء ہیں۔ جس دن آپ کی شہادت ہوئی، وہ عاشوراء کا مقدس و متبرک دن تھا۔ سابقہ امتیں اس دن کا اہتمام کرتیں، خوشیاں مناتیں، جذبات تشکر کا اظہار کرتیں اور یہ امت بھی جہاں اس دن خدا کی بندگی کا اظہار کرتی ہے، وہیں پیغام عزیمت کی تجدید کرتی ہے اور خانوادہ نبوت سے اپنی والہانہ عقیدت و محبت کا حدود شریعت میں اظہار کرتی ہے۔
یوم عاشوراء کی فضیلت اور اس دن کے روزے کی اہمیت کے بارے میں بھی متعدد روایات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے منقول ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل روزہ ماہ محرم کا ہے۔ (ماثبت من السنۃ۔ص:۸)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ روایت بھی ملتی ہے کہ یوم عاشوراء کا روزہ رکھا کرو، کیونکہ اس دن انبیاء کرام روزہ رکھا کرتے تھے۔ (حوالہ سابق)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا: ’’اگر ماہ رمضان کے علاوہ روزہ رکھنا چاہو تو پھر محرم کا روزہ رکھا کرو، کیونکہ یہ اللہ تعالی کا مہینہ ہے‘‘۔ اسی مہینہ میں ایک دن ایسا ہے، جس میں اللہ تعالی نے پچھلے لوگوں کی توبہ قبول فرمائی اور اسی دن آئندہ بھی لوگوں کی توبہ قبول فرمائے گا۔
یوم عاشوراء کے موقع پر لوگوں کو سچی توبہ کی تجدید پر ابھارا کرو اور توبہ کی قبولیت کی امید دلاؤ، کیونکہ اللہ تعالی نے اس دن پہلے لوگوں کی توبہ قبول فرمایا ہے اور اسی طرح آنے والوں کی بھی توبہ قبول فرمائے گا۔ (الترمذی۔۱:۱۱۴)
حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ یہودی یوم عاشوراء کی بہت تعظیم کرتے تھے اور اس دن عید مناتے تھے۔ خیبر کے یہودیوں کی عورتیں اس دن عمدہ لباس اور زیور پہنتی تھیں۔ (ماثبت من السنۃ۔ص:۵)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو یہود یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ ایک عظیم دن ہے، کیونکہ اس دن اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دلائی اور فرعون مع لشکر غرق ہوا۔ حضرت موسی علیہ السلام نے شکرانہ میں روزہ رکھا، اس لئے ہم تعظیماً روزہ رکھتے ہیں۔ (حوالہ سابق)
یہ بھی ثابت ہے کہ ظہور اسلام سے قبل قریش مکہ اور اعلان نبوت سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب آپﷺ مدینہ تشریف لائے تب بھی آپ نے اور صحابہ کرام نے یوم عاشوراء کا روزہ رکھا، لیکن جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپﷺ نے صحابہ کرام کو اس بات کی اجازت فرمائی کہ جو چاہے عاشوراء کا روزہ رکھے اور جو چاہے ترک کردے۔ (مسلم و ترمذی)
ایک مرتبہ عاشوراء کے موقع پر آپﷺ نے انصار مدینہ کی بستیوں میں یہ اعلان کرادیا کہ لوگوں میں سے جس نے روزہ رکھا ہے، اسے پورا کرے اور جس نے نہیں رکھا وہ اسی حال میں گزارے۔ اس کے بعد انصار کا یہ معمول تھا کہ وہ یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، ان کے بچے بھی روزہ رکھتے تھے۔ بچوں کو مسجد میں لے جاتے، انھیں کھلونے دیتے، لیکن جب کوئی بچہ بھوک سے روتا تو اسے کھانا بھی کھلادیا جاتا۔ (بخاری، بشرح کرمانی۹:۱۴۹۔ ماثبت من السنۃ۔ص:۹)